ایزی پیسہ کے پرسنل اکاؤنٹ سے کاروبار کرنا کیسا ہے؟ مثال کے طور پرمیرا پرسنل اکاؤنٹ ہے،اب کچھ بندے مجھےپیسےبھیجتےہیں،میرےپاس کیش ہوتاہےمیں انہیں کیش دے دیتاہوں،اور وہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں پڑے رہتے ہیں، پھر بوقتِ ضرورت میں اسے استعمال کرتا ہوں، اب کیا میں ان کو ایک ہزار کیش دینے پر 20 روپےلے سکتا ہوں یا نہیں؟جو کہ عام طور پر کسی دکان والےکے ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے 1000 روپے نکلوانے پر 20روپے کٹوتی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ ایزی پیسہ کے بعض اکاؤنٹس ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں اکاؤنٹس ہولڈرزکوکمپنی کی طرف سے یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے سے بھیجی گئی رقوم نکلوائیں ،اس نکلوانےپر کمپنی کسٹمرزحضرات سے اس سہولت کی مد میں ایک مخصوص رقم کاٹتی ہے ،جس میں سے اکاؤنٹس ہولڈر زکو بھی مخصوص ومتعین نفع دیا جاتا ہے مثلاًکمپنی 200روپے کاٹتی ہے اور اس میں سے 20روپے اکاؤنٹس ہولڈرزکو دیتی ہے،اس قسم کے اکاؤنٹس میں کمپنی کا اکاؤنٹس ہولڈرز سے یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈرز مذکورہ مخصوص رقم(20روپے)کے علاوہ مزیداضافی رقم کسٹمرز حضرات سے وصول نہیں کریں گے اور باقاعدہ ہر بار رقم نکلوانے کے بعد کمپنی کی طرف سے کسٹمرزکو یہ میسیج بھی بھیجا جاتا ہے کہ اکاؤنٹس ہولڈرز کوکاٹی گئی رقم کے علاوہ مزید اضافی رقم نہ دی جائے،یہاں تک کہ اضافی رقم لینے کی شکایت کی صورت میں اکاؤنٹ ہولڈرکا لائسنس بھی منسوخ کیا جاتاہے۔
اوران میں سے بعض اکاؤنٹس ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں اکاؤنٹس ہولڈرزکو اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ کی طرف رقوم منتقل کرسکتے ہیں یا اپنے اکاؤنٹ سے اپنے آپ کو یا کسی اور کوایزی لوڈ کرسکتے ہیں ،باقی بھیجی گئی رقوم نکلوانے کا اختیار نہیں ہوتا،اس قسم کے اکاؤنٹس میں مذکورہ سہولت کی مد میں کمپنی کی طرف سے کوئی رقم نہیں کاٹی جاتی ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا ایزی پیسہ کا اکاؤنٹ چونکہ پرسنل ہےاور اس صورت میں رقم کی منتقلی میں اکاؤنٹ ہولڈر کا کوئی عمل نہیں ہوتا بلکہ منتقلی کا یہ عمل توکمپنی کی طرف سے مفت کیاجاتا ہے ،تواس اکاؤنٹ ہولڈر(سائل)کا گاہک کونقد رقم (کیش)فراہم کرکے اس سے اس پر 20روپےیا کم وپیش اضافہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
موسوعۃ القواعد الفقھیۃ میں ہے:
"لا رجوع فيما تبرع به عن غيره التبرع: هو إعطاء مجاني دون مقابل.فمن دفع مالا عن غيره بغير إذنه أو أوامره، فلا حق له في الرجوع على من دفع عنه؛ لأنه متبرع."
(حرف لا،القاعدۃ الثالثۃ والثلاثون:التبرع،ج8 ،ص868،ط:مؤسسۃ الرسالۃ۔بیروت)
العقود الدریۃ فی تنقيح الفتاوى الحامدیۃ میں ہے:
"وفي العمادية من أحكام السفل والعلو المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ"
(کتاب المداینات،2/226،ط:دارالمعرفۃ)
الدرمع الرد میں ہے:
"هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما ۔۔۔(خال عن عوض)۔۔۔ (بمعيار شرعي)۔۔۔(مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين)۔۔۔(في المعاوضة)."
(کتاب البیوع،باب الربوا،5/168۔170،ط:سعید)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال."
(کتاب البیوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعہ وما لا يجوز، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامہ،177/3،ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101934
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن