بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرندوں کا شکار کرنا / روزے کی قضا اور کفارہ کب لازم ہے؟


سوال

1- میں پرندوں کے شکار کا شوقین ہوں، شکار کرنے کے بعد میں پرندے شوق سے کھاتا ہوں۔  بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ جیسے شخص  کے لیےشکار کرنا ناجائز ہے، برائے مہربانی شرعی مسئلہ بتادیں؟

2- روزے کی قضا اور کفارہ میں کیا فرق ہے؟ نیز یہ بھی بتادیں کن صورتوں میں قضا اور کن صورتوں میں کفارہ ہے؟

جواب

1- پرندوں کا شکار کرنا جائز ہے، اور شکار کیے ہوئے حلال پرندوں کا کھانا بھی جائز ہے، شرعی طور پر اس میں قباحت نہیں ہے، شکار کا جائز ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اللہ نے حلال پرندوں کو  کھانا حلال کیا ہے اور ان کو انسانوں کے نفع کے لیے بنایا ہے، بشرطیکہ شکار کرنے سے  لہو ولعب مقصود نہ ہو۔ نیز شکار کو پیشہ بنانا اور شکارکرکے فروخت کرنا یہ بھی جائز  اور درست ہے۔ البتہ شرعی حدود  کا خیال اور عبادات کا اہتمام بھی ساتھ لازم ہے، شکار کی وجہ سے نمازیں قضا کرنا درست نہ ہوگا۔

یہ بھی یاد رہے کہ بندوق کی گولی سے کیا ہوا شکار  اگر ذبح سے پہلے مرجائے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر گولی سے شکار کرنے کے بعد جانور کو زندہ زخمی حالت میں پالیا اور پھر اس کو  اللہ کا نام لے کر  ذبح کردیا جائے تو اس کو  کھانا جائز ہوگا؛ لہٰذا بسم اللہ پڑھ کر چھوڑی ہوئی گولی سے کیا ہوا شکار ذبح سے قبل مر جائے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر دھاری دار چیز (جیسے تیر وغیرہ) سے شکار کیا جائے، اور اسے چھوڑنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا جائے اور اس جانور پر قابو پانے سے پہلے ہی وہ مرجائے تو  اس شکار کا کھانا درست ہوگا۔

باقی پرندوں کے حلال یا حرام ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ  جو پرندہ  اپنے پنجوں سے شکار  کرتا ہو وہ حرام ہے اور جو اپنے پنجوں سے شکار  نہ کرتا ہو، وہ حلال ہے۔

2-  رمضان کا روزہ نہ رکھنے یا رکھ کر توڑدینے، اسی طرح نفلی روزہ  رکھ کر توڑ دینے سے روزے کی قضا لازم ہو جاتی ہے۔ ایک روزے کے بدلے میں صرف ایک روزہ رکھنا اس کو قضا کہتے ہیں۔  اب اگر روزہ  رکھ  کر بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر توڑ دیا گیاہو اور جس چیز سے روزہ توڑا اس میں بدن کا انتفاع ہو یا اس چیز کے استعمال کی عادت ہو تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتاہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

وہ شخص جس میں روزہ فرض ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں، رمضان کے اُس اَدا روزے میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کرچکا ہو عمداً  روزہ توڑدے، یعنی بدن کے کسی جوف میں قدرتی یا مصنوعی منفذ (Opening) سے کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی غذا یا دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہو یا جماع کرے یا کرائے ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوگا، اور اس فعل پر توبہ واستغفار بھی کرنا لازم ہوگی۔

اور ایک روزے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کیا جائے،  یہ ممکن نہ ہو(جیسے آج کے دور میں غلاموں کا وجود نہیں )تو کفارہ میں ساٹھ روزے مسلسل رکھنا واجب ہیں ، اور ساٹھ روزے مسلسل رکھنے کی بھی استطاعت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا واجب ہے۔

روزہ ٹوٹنے یا توڑنے سے کب کب صرف قضا ہوگی، اور کب کفارہ بھی لازم ہوگا، اس کی جزئیات بہت زیادہ ہیں، آپ کو جو مسئلہ درپیش ہو، متعینہ طور پر وہ سوال کرلیجیے، ان شاء اللہ اس کا حکم بتادیا جائے گا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں