ہماری مسجدمیں پانی کی بڑی قلت ہے،سرکاری لائن سےآنےوالاپانی کبھی کبھارکفایت کرتاہے،مسجدسےمتصل پارکنگ کی جگہ جوکہ حدودِمسجداوررقبہ سےخارج ہے، عام شاہراہ پرایک بورنگ کروائی تھی،جس کاپانی نیچےاترچکاہےجوکہ اب بےانتہاکمیاب ہے۔
اس صورتِ حال کےپیشِ نظرپارکنگ کی جگہ میں گہراکنواں کرواکرمسجداورنمازیوں کی ضرورت کےلیےاس کاپانی استعمال کرسکتےہیں،بایں وجہ کہ سرکاری زمین غیرمملوکہ ہوگی، اس میں کنواں کھودنےکی شرعًا اجازت ہوگی؟واضح رہےکہ بورنگ کرنےکی وجہ سےگزرنےوالوں کوکوئی پریشانی اوررکاوٹ نہیں ہے۔ نیزقبل ازاں کئی سال پہلےاسی جگہ بورنگ کروائی تھی،جس کاپانی اب تک استعمال ہوتارہا،اس میں شرعًاکوئی قباحت تونہیں ؟
واضح رہےکہ عام شاہراہ ،روڈکےاطراف میں گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ وغیرہ جیسےعمومی مقامات کےساتھ جس طرح عوام کاحق وابستہ ہوتاہے،اسی طرح اس کےساتھ سرکارکابھی حق وابستہ ہے،اس طرح کےمقامات میں کسی قسم کاتصرف کرنےکےلیےدوچیزوں کاہونا ضروری ہیں:عام لوگوں کواس تصرف سےتکلیف نہ ہواور حکومت اس کی اجازت دے۔
لہذا پارکنگ کی جگہ پربورنگ کرنےمیں جس طرح عام لوگوں کوتکلیف سے بچاناضروری ہے، اسی طرح سرکار کی طرف سے اجازت لینا بھی ضروری ہے،صورتِ مسئولہ میں اگر حکومت اجازت دے، تو پارکنگ کی جگہ پر بورنگ کرنے کی گنجائش ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."
(كتاب الغصب، مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6،ص:200، ط:دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وفي الأجناس وفي نوادر هشام قال: سألت محمد بن الحسن عن نهر قرية كثيرة الأهل لا يحصى عددهم وهو نهر قناة أو نهر واد لهم خاصة، وأراد قوم أن يعمروا بعض هذا النهر ويبنوا عليه مسجدا ولا يضر ذلك بالنهر ولا يتعرض لهم أحد من أهل النهر قال محمد - رحمه الله تعالى -: يسعهم أن يبنوا ذلك المسجد للعامة أو المحلة، كذا في المحيط.قوم بنوا مسجدا واحتاجوا إلى مكان ليتسع المسجد وأخذوا من الطريق وأدخلوه في المسجد إن كان يضر بأصحاب الطريق لا يجوز وإن كان لا يضر بهم رجوت أن لا يكون به بأس، كذا في المضمرات وهو المختار، كذا في خزانة المفتين."
(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، ج:2، ص:456، ط:دار الفكر)
المحیط البرہانی میں ہے:
"مسجد ضاق عن أهله وعن طريق العامة أنه لا بأس بأن يلحق بالمسجد من الطريق إذا كان لا يضر بأصحاب الطريق؛ لأن كليهما حق عامة المسلمين كذا هنا في فتاوي أبي الليث."
(كتاب الوقف، الفصل الرابع والعشرون: في الأوقاف، ج:6، ص:224، ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101213
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن