بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پارک کی جگہ میں مسجد بنانا


سوال

ہمار اعلاقہ (ڈائمنڈ سٹی نزد گلشنِ معمار)نیا آباد ہو رہا ہے ،جس میں دو مختلف جماعتوں  کی مسجدیں بنی ہوئی ہیں ، جو کہ فلیٹس اور آبادی سے کچھ دور ہیں، جس کی وجہ سے اہلِ محلہ کا مطالبہ ہے کہ ان کے قریب ایک جگہ پارک کے لیے مختص کی گئی ہے اس میں سے کچھ جگہ پر مسجد بنادی جائے ، اہلِ محلہ کے پُر زور مطالبہ کی وجہ سے بلڈر کاکہنا ہے کہ اس بات کا فتوی لے آئیں کہ پارک کی زمین میں کچھ حصہ مسجد کے لیے دیا جاسکتا ہے ، واضح رہے کہ مذکورہ پارک کی جگہ بلڈر کی ذاتی ہے ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ پارک کی  جگہ بلڈر کی ذاتی جگہ ہے، تو اس جگہ   محلہ والوں  کے لیے مسجدبنانا جائز ہوگا ، تاہم جب اس جگہ   ایک دفعہ مسجد بن جائے تو وہ جگہ قیامت تک کے لیے مسجد ہوگی ، اس جگہ کو کسی دوسرے مقصد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

البحرالرائق  میں ہے :

’’وقال أبو يوسف هو مسجد أبدا إلى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى كذا في الحاوي القدسي وفي المجتبى وأكثر المشايخ على قول أبي يوسف ورجح في فتح القدير قول أبي يوسف بأنه الأوجه۔‘‘

(کتاب الوقف، شروط الواقفین،جعل مسجد اًتحتہ سرداب ۔۔۔۔۔،ج:۵،ص:۲۷۱،۲۷۲،ط:دارالکتاب الإسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

’’(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)بجماعة 

وفی الرد:(قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اهـ. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا ۔‘‘

(کتاب الوقف ، مطلب سکن داراً ثم ظھر أنھا وقف،ج:۴،ص:۳۵۵،۳۵۶،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

’’مثلما يتصرف صاحب الملك المستقل في ملكه كيفما شاء۔‘‘

(مجلۃ الأحکام العدلیۃ ،ألفصل الثانی فی بیان کیفیۃالتصرف،ج:۱، ص:۲۰۶،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں