بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرندوں کی زکوٰة


سوال

1۔ میں نے کچھ طوطے پالے ہوئے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ  آسٹیرلین اور لوبرڈس طوطے پر ز کوٰة کا کیا حکم ہے؟

2۔ ان سے نکلنے والے ایک یا دو یا تین چار پانچ دن کے بچوں کو زکوٰة میں شامل کرنے کا کیا حکم ہے؟  اور کس قیمت کے اعتبار سے شامل کیاکیاجائے ؟

 3۔ کچھ انڈےبرڈس نے ابھی  دیے ہیں تو ان کو شامل کیا جائے گا یا نہیں؟  اگر شامل کیا جائے گا تو کس قیمت کے اعتبار سے ؟ بعض اوقات ان انڈوں سے  جب بچے نکلنے والے ہوتے ہیں، تو کچھ بچے انڈوں میں ہی مرجاتے ہیں۔

4۔ کچھ برڈس کا تو ہمیں پتا ہوتا ہے اس میں یہ بچے نکلیں گے لیکن کچھ پئیر ایسے ہوتے ہیں ان میں مختلف بچے نکلتے ہیں، یعنی  کچھ سستے اور کچھ مہنگے ہوتےہیں ان  کی زکوٰۃ  کا کیا حکم ہے؟

تھوڑی تفصیل سے رہنمائی فرمائیں

جواب

واضح رہے کہ جو پرندے انسان شوقیہ پالتا ہے، وہ چاہے کتنے ہی قیمتی ہوں، اور  ان کی کتنی ہی تعداد ہو،  اس پر زکوٰة واجب نہیں ہوتی، البتہ انسان جو پرندوں اور ان کے انڈوں کا کاروبار کرتا ہو، تو ایسے پرندے چونکہ  مال تجارت  ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر زکوٰة  واجب ہوتی ہے، جس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ، زکوٰة کا سال مکمل ہونے پر پرندوں کی جو قیمت فروخت  ہو، اس کے اعتبار سے  کل مالیت کا  متعین کرنے کے بعد اسے چالیس سے تقسیم کر دیا جائے، حاصل تقسیم جو بنے وہ زکوٰة کی مد میں ادا کر دیا جائے۔

1۔ شوقیہ پالے گئے پرندوں پر زکوٰة واجب نہ ہوگی، البتہ تجارتی مقاصد کے لیے رکھے پرندوں پر تفصیل بالا کے مطابق زکوٰة  واجب ہوگی۔

2۔ تجارتی مقاصد کے لیے رکھے پرندوں سے پیدا ہونے والے نوزائیدہ  بچوں کی عمر کے اعتبار سے  جو قیمت فروخت بنتی ہو، اسے زکوٰة  کے حساب میں شامل کیا جائے گا، جبکہ شوقیہ پالے ہوئے پرندوں کے بچوں پر کوئی زکوٰة  واجب نہ ہوگی۔

3۔ پرندوں کے انڈے اگر فروخت کرنا مقصود ہو، تو یہ انڈے بھی مال تجارت شمار ہوں گے، زکوٰة کا سال مکمل ہونے پر ان کی جو قیمت فروخت ہو، اسے زکوٰة کے حساب میں شامل کیا جائے گا، البتہ اگر انڈے فروخت کرنا مقصود نہ ہو، تو ان پر زکوٰة واجب نہ ہوگی۔

4۔  تجارتی مقاصد کے لیے رکھے پرندوں کے انڈوں سے جب تک بچے نکل نہ  آئیں ان کے انڈوں پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی، إلا یہ کہ ان کے انڈوں کی بھی تجارت کی جاتی ہو، تو انڈوں کی قیمت فروخت کے اعتبار سے حساب کیا جائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ... إذا كان له مائتا قفيز حنطة للتجارة تساوي مائتي درهم فتم الحول ثم زاد السعر أو انتقص فإن أدى من عينها أدى خمسة أقفزة، وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الثانی فی العروض، ١ / ١٧٩، ط: دار الفكر)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء ... ويقوم في البلد الذي المال فيه.

وفي المحيط: يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح."

( کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ٢ / ٢٨٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں