بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرندوں کے بدلے پرندے فروخت کرنا


سوال

میں پرندوں کی خرید و فروخت کرتا ہوں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں پرندے کے بدلے دوسرے پرندے ایکسچینج میں لیتا ہوں، پھر اس میں کبھی مجھے پیسے اوپر دینے پڑتے ہیں تو کبھی میں اوپر پیسے لیتا ہوں۔ اس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی جنس کا پرندے کا ایکسچینج ہوتا ہے تو کبھی دوسری جنس کے پرندے سے، کبھی ایک کے بدلے دو بھی لیتا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس طرح کی خرید و فروخت کرنا درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو درست صورت کیا ہے؟

جواب

پرندے  کے بدلے پرندے کو فروخت کرنا جائز ہے، خواہ وہ ایک جنس کے ہوں یا الگ  الگ جنس کے ہوں،  اور خواہ تبادلہ میں ایک طرف سے اضافی پیسے لیے جائیں۔ البتہ پرندہ کو پرندے کے بدلے فروخت کرنے میں دونوں پرندوں کی مجلس میں تعیین ضروری ہے، اگر ایک پرندہ عقد کے وقت موجود ہو اور دوسرا موجود نہ ہو اور اس کی تعیین نہ ہوئی ہو بلکہ وہ ادھار ہو  تو   یہ جائز نہیں ہوگا۔

التجريد للقدوري (5 / 2315):

 "أما الشرع: فروي (أنه عليه [الصلاة و] السلام نهى عن بيع الحيوان بالحيوان إلا يدًا بيد)، وروي: (أنه صلى الله عليه وسلم سئل، فقيل: إنا نبيع الفرس بالأفراس، والنجيبة بالنجائب، فقال: لا بأس به يدًا بيد)، ومعلوم أن الحيوان بالحيوان اعتبر فيه التعيين دون التقابض".

النهر الفائق شرح كنز الدقائق (3 / 471):

" (و) حرم (النساء فقط بأحدهما) أي القدر وحده كالحنطة بالشعير أو الجنس كالهروي بالمروي لما روينا في قوله فإذا اختلفت هذه الأجناس فبيعوا كيف شئتم بعد أن يكون يداً بيد وروى أبو داود أنه عليه الصلاة والسلام (نهى عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئةً) وهذا دليل على أن وجود أحد جزئي علة الربا علة تامة لتحريم النساء وإن كان بعض علة لحرمة الفضل".

اللباب في الجمع بين السنة والكتاب (2 / 510):

"قيل له: نهي النبي [صلى الله عليه وسلم] عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة، لم يكن لاتفاق النوعين، وإلا لجاز بيع العبد بالبقرة نسيئة، وإنما كان لعدم وجود مثله، ولأنه غير موقوف عليه. وإذا كان كذلك بطل قرضه أيضا لأنه غير موقوف عليه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں