بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرش پاک کرنے کے بعد اس سے بدبو آنا


سوال

اگر فرش پر پیشاب خشک ہو جائے یا خشک ہونے سےپہلے اس پر اتنا پانی بہادیا جائے کہ غالب گمان ہو جائے کہ وہ پاک ہوگیا،اور بعد میں بدبو آئے اور آپ کا غالب گمان ہو کہ بدبو پہلے کے مقابلے میں ابھی کم ہے،تو کیا فرش پاک ہوگا یانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں فرش پرپیشاب خشک ہوجائےتومذکورہ فرش کو پاک کرنے  کے دو طریقے ہیں:

1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے،پھر  کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔

اسی طرح مذکورہ فرش خشک ہوجانےسےپہلےاس پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہادیاجائےکہ غالب گمان ہوجائےکہ فرش پاک ہوگیا،اوراس پر نجاست کاکوئی اثر باقی نہ رہا،پھر بھی اس سےبدبوآرہی ہو(اگرچہ پہلےکی بنسبت کم کیوں ہی نہ ہو)تب بھی ایسی صورت میں فرش پاک ہی کہلائے گا۔

نیز:یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے، از روئے فتویٰ تو مذکورہ فرش خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے بھی پاک ہوجائے گا، لیکن جہاں سہولت ہو احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔ تاہم دونوں صورتوں میں  پانی سے دھوئے بغیر اس پر  تیمم نہیں کیا جاسکتا۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

 "وإذا ذهب أثر النجاسة عن الأرض و" قد "جفت" ولو بغير الشمس على الصحيح طهرت و "جازت الصلاة عليها" لقوله صلى الله عليه وسلم: "أيما أرض جفت فقد زكت" "دون التيمم منها."

( كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص:164، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان."

(كتاب الطهارة، الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الأول في تطهير الأنجاس، ج:1، ص:43، ط: دار الفكر)

وفیه أیضاً:

"(ومنها) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل. كذا في البحر الرائق ويشارك الأرض في حكمها كل ما كان ثابتا فيها كالحيطان والأشجار والكلأ والقصب ما دام قائما عليها."

(کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسة وأحكامها،الفصل الأول في تطهیر النجاسة، ج:1، ص:44، ط: دارالفکر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً."

(كتاب الطهارات، الفصل السابع في النجاسات وأحكامها، ج:1، ص:200، ط: دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"وإن كان اللبن مفروشا فجف قبل ‌إن ‌يقلع ‌طهر ‌بمنزلة ‌الحيطان، وفي النهاية إن كانت الآجرة مفروشة في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعة تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لا تجوز صلاته، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:237، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں