بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پڑھائی کی وجہ سے نکاح کے بعد رخصتی میں تاخیر کرنا


سوال

میرا دوست سی - اے کا طالبِ علم ہے ،اور ایک جگہ ٹریننگ کر رہا ہے جس سے ماہانہ ۱۶-۲۰ ہزار کماتا ہے،وہ کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے، لیکن مالی حالت کی وجہ سے بیوی کو رُخصت کر کے اُس کی ذمےداری نہیں اٹھا سکتا، دونوں گھر والے راضی ہیں  کہ جب ٹریننگ کے دو سال ختم  ہوجائیں گے،تو دونوں کا نکاح اور رخصتی کرا دیں گے، جب تک کے لیے صرف رشتہ طے کر دیتے ہیں، گھر کا ماحول ایسا ہے کے رشتے کے بعد لڑکا لڑکی بات چیت کر سکتے ہیں، وہ بندہ اس گناہ سے بچنے کے لیے منگنی کے بجائے نکاح کرنا چاہتا ہے، اور ۲-۳ سال میں رخصتی کیوں کہ ٹریننگ کے بعد اُسے اچھی جاب مل جائےگی ،اسی ادارے سے، کیا  رخصتی میں تاخیر کرنے کی اُس کی یہ وجہ معقول ہے؟ رہنمائی فرمایئے۔

جواب

نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر (مثلاً رہائش کا انتظام نہ ہونے  وغیرہ،یا مالی حالت ایسی  ہے کہ نان نفقہ پر قادر نہیں ) کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے،نیز نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے لیے شوہر اور بیوی کی ہے،  چاہے رخصتی نہ  ہوئی ہو،لہذا بات جیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  سائل کا دوست مذکورہ عذر کی بناپر  منگنی کے بجائے نکاح کر سکتا ہے ،چاہے رخصتی بعد میں باہمی مشورے سے جب چاہیں کر لیں ،البتہ جب تک نکاح نہیں ہو جاتا سائل کے دوست کا کسی بھی نامحرم عورت سے بلا ضرورت بات کرنا جائز نہیں ۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»".

(مشكاة المصابيح  ،كتاب النكاح ،2/ 939،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:" جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ س کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب ‌من ‌استطاع ‌منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء."

(كتاب النكاح ،الفصل الأول ،ج:2 ،ص:947 ،ط:المكتب الإسلامي)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"«من استطاع منكم الباءة» )  ومعناها الجماع مشتق من الباه المنزل، ثم قيل لعقد النكاح باه، لأن من تزوج امرأة بوأها منزلا، وفيه حذف مضاف أي:مؤنة الباءة من المهر والنفقةَ."

(كتاب النكاح ،ج:5 ،ص:2041 ،ط: دارالفكر)

 فتاوی شامی میں ہے :

‘‘  فإن خطبہا الکف ء لا یؤخرہا وهو کل مسلم تقي."

(کتاب النکاح ،ج:4 ،ص:67 ،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں