بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پڑھائی کی فیس ادا کرنے کےلیے بینک سے لون لینے کا حکم


سوال

 میرا سوال سود پر رقم لےکر پڑھائی کے متعلق ہے،  تفصیل یہ ہے کہ  میری بیٹی جو کہ میڈیکل کے تیسرے سال کی اسٹوڈنٹ ہے،میں اسے سود پر لون لے کر پڑھنے سے منع کرتی/جھگڑتی رہتی ہوں، مگر وہ میری بات نہیں مانتی، پہلے  سال انہوں نے جھوٹ بولا کہ انہیں تقریبًا تیس ہزار ڈالرز کی اسکالر شپ ملا ہے، جب کہ تقریباً تیرا ہزار ملا تھا، اور باقی کی فیس ہم نے اپنی جمع شدہ رقم سے ادا کی جو کہ تقریبا 34000$ تھی، جب کہ ان کی ٹوٹل  سالانہ فیس (64000$) ہے، یعنی اس وقت بھی انہوں نے لون لیا تھا،  یہ بات ٹیکس فائل کرتے وقت ان کو بتانی پڑی، دوسرے سال ہم نے انہیں کہا کہ گیپ ایئر لیں، کیوں کہ یہ بات پہلے سے آپس میں طے شدہ تھی، لیکن انہوں نے گیپ نہیں لیا، پھر ہم نے تقریبًا دو سمسٹرز فیس بھری، اس کے بعد انہیں منع کیا کہ ابھی اکاؤنٹ سے پیسے مت کٹوائے، جب تک ہم نہ کہیں، کیوں کہ ہمارے اکاؤنٹ میں رقم نہیں تھی، دو ہفتہ انتظار کرنے کے بعد انہوں نے ہمیں بتائے بغیر دوبارا سود پر لون لے لیا، جب کہ فیس اگلے ماہ لیٹ بھی جمع کروائی جا سکتی تھی۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ہر وقت بہت ڈر لگتا رہتا ہے، اپنی ساری زندگی سود پر کچھ بھی لینے سے بچنے کی پوری پوری کوشش کی، اور الحمدللّٰہ بچے رہے تھے، مگر اب بیٹی نے یہ کام ہماری بغیر اجازت کے شروع کر دیا ہے، ابھی تک covid کی وجہ سے انٹرسٹ معاف تھا، مگر اس سال شاید معاف نہ ہو، ان کو قرآن کی آیات بھی بتاتی رہتی ہوں کہ کسی قسم کا سود لینا اللہ تعالٰی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے برابر ہے، لیکن وہ کہتی ہے کہ یہ ہماری سوچ ہے، امریکہ میں سب ہی سود پر رقم لے کر پڑھتے ہیں، اور یہاں پر چند اسکالر بھی یہی کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، جب کہ قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت 275,276،278 میں سود کی حرمت کا بیان موجود ہے، اور حدیث میں بھی موجود ہے،  مجھے ہر وقت  اللہ سبحانہ و تعالیٰ  سے بہت خوف محسوس ہوتا رہتا ہے، ہر وقت بہت پریشان رہتی ہوں، آپ  ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ سود لینا اور سود دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ مبارک میں  سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی  گئی ہے، اور بینک  سے   ملنے والا قرض  سود پر مشتمل ہوتا ہے، اور بینک سے قرض لینا سودی معاملہ ہے،  اور سودی قرض لینا جائز نہیں  ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی بیٹی کا اپنی پڑھائی کی فیس ادا کرنے کےلیے بینک سے قرض لینا شرعاً جائز نہیں ہے، سائلہ کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ کفایتِ شعاری سے کام لیں، اور جتنی رقم میسر ہے، اس کے مطابق کسی دوسرے جگہ پڑھائی کا انتظام کرلے، کیوں کہ سود سے بچنا ایک فرض امر ہے، سائلہ کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ آئندہ کےلیے ہرقسم کے سودی معاملہ سے اجتناب کریں،  اور جو ہوچکا ہے اس پر توبہ و استغفار کریں، کیوں کہ سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾

(سورۃ البقرة : 278-280)

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے، اس کو چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے، تو اشتہار سن لو، جنگ کا اللہ کی طرف سے، اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرلوگے، تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے، اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک، اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔

(از: بیان القرآن )

سود کے ایک درہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 36مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

 " عن عبد الله بن حنظلة , أن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: ’’الدرهم ربا ‌أشد ‌عند ‌الله تعالى من ستة وثلاثين زنية في الخطيئة‘‘."

(سنن دار قطني، کتاب البیوع، رقم الحدیث: 2845، ج: 3، ص: 405، ط: مؤسسة الرسالة)

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے، سودی معاملے کی سنگینی کا اندازا   اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔

حدیث شریف  میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آ كل ‌الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(مشكاة المصابيح، باب الربوا، الفصل الأول، رقم الحدیث: 2807، ج: 2، ص: 855، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے ، کھلانے والے ، (سُود کا حساب) لکھنے والے  اورسود پر گواہ بننے والے پر لعنت کی ہے۔ ‘‘

   خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے، نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے، اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت  کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر اپنے کام  کرتے ہیں، ساری زندگی سود سے پیچھا چھڑانے میں گزرجاتی ہے، بلکہ بکثرت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اپنے اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتاہے۔

أعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(کتاب الحوالة، باب کل قرض جرّ منفعة، ج: 14، ص: 513، ط: إدارۃ القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام."

(کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج: 5، ص: 166، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144406100772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں