بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پریشانیوں اور آفتوں کی وجہ سے گھر تبدیل کرنا


سوال

استخارہ کروانا ہے وہ یہ ہے کہ 4سال شادی کو ہوئے ہیں،لیکن ہر مہینے کوئی نہ کوئی پریشانی کا سامنا  کرنا پڑتا ہے،کبھی بچے ضائع،کبھی مالی حالات سے پریشان،کبھی جسمانی بیماریاں،کبھی جاب کا مسئلہ،کبھی بچوں پر آفت،4سال سے ہر مہینہ ایک مسئلہ کے بعد دوسرا مسئلہ آجاتا ،استخارہ کروانا چاہ رہے ہیں اور یہ پوچھنا ہے کہ کیا ہمارا گھر تبدیل کرنا بہتر ہے رہے گا یا نہیں؟کیونکہ جہاں ہم رہ رہے ہیں یہاں گھر کا مسئلہ بتایا تھا کسی نے۔

جواب

دار الافتاء صرف شرعی مسائل کی راہنمائی کے لیےہے،باقی  حالات اور آزمائش انسان کے اوپر اللہ کی طرف سے آتیں ہیں اور ان کا حل اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ، اللہ سے دعا مانگ کر اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ نیز سائلہ اور اس کے گھر والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں کوئی ایسا گناہ تو نہیں ہورہا جس کی وجہ سےاللہ نے اس آزمائش میں ڈالا اس گناہ سے توبہ بھی کرنی چاہیے۔

نیز یہ تصور کرنا کہ  گھر کی نحوست کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے تو یہ تصور بلکل غلط ، بے بنیاد اور شریعت کے خلاف ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن سعد بن مالك - رضي الله عنه - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «لا هامة ولا عدوى ولا طيرة. وإن تكن الطيرة في شيء ففي الدار، والفرس والمرأة» " رواه أبو داود

(ففي الدار) : أي فهي في الدار الضيقة (والفرس) : أي الجموح (والمرأة) : أي السليطة، والمعنى أن فرض وجودها تكون في هذه الثلاثة، ويؤيده ما ورد في الصحيح بلفظ: " «إن كان الشؤم في شيء ففي الدار والمرأة والفرس» "، والمقصود منه نفي صحة الطيرة على وجه المبالغة فهو من قبيل قوله صلى الله عليه وسلم: ( «لو كان شيء سابق القدر لسبقته العين» ) فلا ينافيه حينئذ عموم نفي الطيرة في هذا الحديث وغيره."

(کتاب الطب و الرقی، باب الفأل و الطیرۃ ج 7، ص 2899، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں