بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پردہ کرنے پر والدہ کا ناراض ہونا


سوال

میری شادی کو پانچ سال گزر گئے ہیں، میرے تایا ابو کا پوتا میری امی کے ساتھ میرے گھر آیا جو بالغ تھا، میرے شوہر نے مجھے کہا کہ تمہارے لیے یہ غیر محرم ہے، تو میں نے امی سے بولا کہ اسے بیٹھک تک محدود رکھیں تو امی نے میرے ساتھ یہ کہہ کر ناراضی اختیار کر لی کہ وہ بچپن میں تمارے پاس کھیلا اور پلا  ہے ،اس سے پردہ کیوں کیا ؟

جواب

واضح رہےکہ لڑکی کے لیے اس کے تایا کا بالغ  پوتا نامحرم ہے، اور اس سے پردہ فرض ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ  کا اس لڑکے سے پردہ کرنا درست، بلکہ ضروری ہے، اور سائلہ کی والدہ کا اس پر ناراض ہونا بجا نہیں،  سائلہ کو چاہیے کہ ان کو ادب و احترام کے ساتھ اس شرعی حکم سے آگاہ کردے، اور ان کو سمجھائیں کہ کسی لڑکے سے بچپن میں پردہ نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ بالغ ہونے کے بعد بھی اس سے پردہ کرنا ضروری نہ ہو، اس لیے  کہ پردہ تو کسی بھی نابالغ بچے سے واجب نہیں ہوتا، چاہے اس سے کوئی رشتہ ہو یا نہیں اور والدہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے پردہ کے اہتمام پر ناراض ہونے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔

أحكام القرآن  للجصاص ميں ہے:

"عن أم سلمة قالت: "لما نزلت هذه الآية: {يدنين عليهن من جلابيبهن} خرج نساء من الأنصار كأن على رءوسهن الغربان من أكسية سود يلبسنها".

قال أبو بكر: في هذه الآية دلالة على أن المرأة الشابة مأمورة بستر وجهها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج لئلا يطمع أهل الريب فيهن."

( 3 / 486، باب ذكر حجاب النساء، ط: دارالكتب العلمية)

تفسیرِ ابنِ کثیرمیں ہے:

"قوله تعالى: {وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن} أي: عما حرم الله عليهن من النظر إلى غير أزواجهن. ولهذا ذهب [كثير من العلماء] إلى أنه: لا يجوز للمرأة أن تنظر إلى الأجانب بشهوة ولا بغير شهوة أصلا."

(سورة النور، ٤٤/٦، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أم سلمة أنها كانت عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وميمونة إذ أقبل ابن أم مكتوم فدخل عليه فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " احتجبا منه، فقلت: يا رسول الله أليس هو أعمى لا يبصرنا! قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أفعمياوان أنتما ألستما تبصرانه» . رواه أحمد، والترمذي، وأبو داود.

(أنتما ألستما تبصرانه) قيل فيه تحريم نظر المرأة إلى الأجنبي مطلقا وبعض خصه بحال خوف الفتنة عليها جمعا بينه وبين قول عائشة كنت أنظر إلى الحبشة وهم يلعبون بحرابهم في المسجد ومن أطلق التحريم قال ذلك قبل آية الحجاب والأصح إنه يجوز نظر المرأة إلى الرجل فيما فوق السرة وتحت الركبة بلا شهوة وهذا الحديث محمول على الورع والتقوى."

(كتاب النكاح، باب النظر، ٢٠٥٥/٥، ط:دار الفكر)

ہدایہ کی شرح البنایۃ میں ہے:

"(قال - رحمه الله -: ولا يجوز أن ينظر الرجل إلى الأجنبية) ش: أي قال القدوري في " مختصره ": أي إلى المرأة الأجنبية. وبه قال مالك والشافعي - رحمهما الله - والأصل فيه قوله سبحانه وتعالى: {قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم ويحفظوا فروجهم ذلك أزكى لهم إن الله خبير بما يصنعون} [النور: 30] {وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ‌ويحفظن ‌فروجهن ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها} [النور: 31]."

(كتاب الكراهية، فصل في الوطء والنظر واللمس، ١٢٨/١٢، ط:دار الكتب العلمية)

مسند احمد میں ہے :

" عن علي رضي الله عنه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : لا طاعة لمخلوق في معصية الله عز وجل."

(الجزء الثاني : ج 2 ، ص 333، ط : مؤسسة الرسالة)

ترجمہ :" اللہ تعالٰی کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ "

التفسیر المظہری میں ہے:

"(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة أو إتيان مكروه تحريما؛ لأن ترك الامتثال لأمر الله والامتثال لأمر غيره إشراك معنى، ولما روينا من قوله عليه السّلام: لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق، ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورۃ لقمان:ج7، ص256، ط: مکتبة الرشيدیه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں