بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پردہ اور ستر سے متعلق تفصیل


سوال

 اسلامی شرعی پردہ کی حدود کیا ہیں؟ عورت کا اصل ستر کیا ہے؟ کیا محرموں اور اجنبیوں کے درمیان پردے کا کوئی فرق ہے؟  کیا محرموں اور اجنبیوں کے لیے ستر کی الگ الگ تفصیل ہے؟  کیا قدیم مشرقی پردہ اسلامی طرز پر ہے؟ پردے اور ستر میں آج کل افراط اور تفریط کی صورتیں کیا ہیں؟ 

جواب

 شرعی پردے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو جتنے پردے کا حکم دیا ہے، اس کا اہتمام کرتے ہوئے پردہ کرے، عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ 

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں :

1-  شرعی حجابِ اشخاص،  یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ}    (الاحزاب:۳۳) ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘

2-ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم قرآنی آیت {یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ} (الاحزاب:۵۹)  میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں  تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

3-پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، اما م احمدؒ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظمؒ  نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔

مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے  {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} کے تحت لکھا ہے :

’’عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا‘‘ . (معارف القرآن، کاندھلوی رحمہ  اللہ  )

رئیس المفسرین حضرت عبد  اللہ  بن عباس رضی  اللہ  عنہما  آیتِ  قرآنی {یآیها النبي قل لا زواجك وبنا تك ونساء المؤمنین ید نین علیهن من جلابیبهن ذلك ادنی ان یعرفن فلایؤذین} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً".

( روح المعاني: سورة الأحزاب، 11/ 264 ط: دار الكتب العلمية بيروت)

یعنی خدائے پاک نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ  یا دو آنکھیں کھلی رکھیں۔

لہذا عورت جب بھی اپنے گھر سے نکلے (خواہ بازار کے لیے ہو یا سفر کے لیے) چہرے سمیت پورے بدن کے پردے کے ساتھ  نکلے، ورنہ گناہ ہو گا۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے سفرِ حج  کے دوران بھی پردے کی پابندی منقول ہے۔

گزشتہ تفصیل سے معلوم ہواکہ اجنبی کے سامنے عورت پر چہرے کا پردہ لازم ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس سے عورت کا نکاح ہوسکتاہو، (مثلاً چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، بہنوئی، نندوئی، دیور وغیرہ) ان سب سے بھی چہرے کا پردہ کرنا چاہیے، اگر مشترکہ خاندانی رہائش ہو تو گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگٹ بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر نگاہ نہ پڑے۔ 

ستر کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، گھٹنے ستر میں شامل ہیں، جب کہ عورت کا پورا بدن سوائے تین اعضاء کے ستر میں داخل ہے، وہ تین اعضاء یہ ہیں: (1) چہرہ،(2) دونوں ہتھیلیاں، (3) دونوں قدم۔

  قدیم مشرقی پردہ سے آ پ کی کیا مراد ہے اس کی وضاحت فرمادیں ۔

آپ کے ذہن میں پردے یا ستر کے سلسلے میں  کوئی خاص افراط یا تفریط کی صورت ہو تو اس کی  بھی وضاحت  فرمادیں۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309100585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں