بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرچی پر تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق لکھ کر بیوی کو دینا


سوال

میری بہن کچھ ذہنی معذور ہے،تو اُس کی شادی بھی ایک ذہنی معذور سے کروادی گئی لیکن دونوں پاگل نہیں ہے،بس کچھ ذہنی کمزوری ہے جس کی وجہ سے غصہ جلدی آتاہے،وہ دونوں اپنے ذہنی مرض کے لیےدوائیاں لیتے تھے، دوائیاں نہ لینے کی صورت میں  شدید غصےمیں آجاتے تھے، ابھی کچھ عرصہ سے کاروبار ی پریشانیوں کے باعث میری بہن کے شوہر نے وہ دوائیاں لیناچھوڑدیں تھی، جس کے باعث گھر میں جھگڑا ہوا، لڑائی کے دوران میری بہن نے اپنے شوہر سے کہاکہ مجھے فارغ کردو،تو اس کے شوہر نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا، البتہ ماں اور بہنوں کے دباؤں میں آکر ایک پرچی پر لکھا"طلاق، طلاق، طلاق"اور بیوی کو یہ پرچی دے دی، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس سے طلاق ہوئی ہے یانہیں؟ یہ دونوں ذہنی معذور ہیں، یہاں تک کہ کھانابھی گرائنڈ ر میں پیس کر سوپ بناکرپیتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسؤلہ میں جب سائل کی بہن نے اپنے شوہر سے کہاکہ :"مجھے فارغ کردو" اور اس کے جواب میں شوہرنےپرچی پر تین مرتبہ لکھا:"طلاق، طلاق، طلاق " اور وہ پرچی بیوی کودے دی تواس سے اُس کی بیوی  پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں،اور وہ اپنے شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی،نکاح ٹوٹ چکا ہے ،اب رجوع جائز نہیں،مطلقہ بیوی  اپنی عدت(تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو اور اگر حاملہ ہو تو بچہ کی پیدائش تک کاعرصہ)گزار دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كتب الطلاق، وإن مستبينًا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل: مطلقًا، ولو على نحو الماء فلا مطلقًا.(قوله: كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينةً لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

(کتاب الطلاق، 246/3، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به، 473/1، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401102013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں