بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فارقلیط نام رکھنا


سوال

"فارقلیط" کیا عبرانی زبان کا لفظ ہے؟ اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا بچے کا یہ نام رکھنا درست ہے؟ 

جواب

"فارقلیط "  ہمارے ہاں کی متداول زبانوں (عربی، اردو ، فارسی)  کا لفظ نہیں ہے،  بلکہ  عبراني  زبان کا لفظ ہے  اور انجیل یوحنا  میں رسول اللہ ﷺ  کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اور  اس نام کے  ساتھ آپ ﷺ  کی آمد کی بشارت دی گئی ہے،  لیکن  انجیل کے موجودہ نسخوں میں  تعصبًا   اس کو حذف کردیا گیا ہے    اور اس کا معنی وہی ہے جو عربی میں  "احمد " کا معنی ہے  ،اس نام کا رکھنا شرعًا   جائز تو ہے، لیکن چوں کہ ہمارے  ہاں  اس طرح کے ناموں  کے رکھنے کا معمول نہیں؛ اس  لیے بہتر یہ ہے کہ  لڑکے کے لیے انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں سے اور لڑکی کے لیے   صحابیات  مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے  کسی نام کا انتخاب کرکے  رکھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ ہماری ویب سائٹ  کے سرورق پر اسلامی نام کے سیکشن میں  صحابیات کے کئی نام موجود ہیں، آپ وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"فارقلیط ترجمہ "احمد" کا ہے، اہلِ کتاب کی عادت ہے کہ وہ ناموں کا بھی ترجمہ کردیتے ہیں، عیسی علیہ السلام نے عبرانی میں "احمد" فرمایا تھا، جب یونانی میں ترجمہ ہوا تو "پیر کلوطوس" لکھ دیا، جس کے معنی ہیں "احمد": یعنی بہت سراہا گیا یا بہت حمد کرنے والا۔ پھر جب یونانی سے عبرانی میں ترجمہ کیا تو اس کو "فارقلیط" کردیا، اور بعض عبرانی نسخوں میں نامِ مبارک اب تک "احمد" موجود ہے ۔۔۔" الخ

(بیان القرآن، تفسیر سورۃ الصف، آیت نمبر: 6) 

إظهار الحق (4/ 1186):

"و في الباب الخامس عشر من إنجيل يوحنا هكذا: (فأما إذا جاء الفارقليط الذي أرسله أنا إليكم من الأب روح الحق الذي من الأب ينبثق هو يشهد لأجلي)."

التفسير المنير للزحيلي (9/ 120):

"و جاء في الباب الخامس عشر من إنجيل يوحنا: «فأما إذا جاء الفارقليط الذي أرسله أنا إليكم من الأب روح الحق الذي من الأب ينبثق، فهو يشهد لي، وأنتم تشهدون لأنكم معي من الابتداء» و الفارقليط بالعبرية: معناه أحمد کما قال تعالى حكاية عن عيسى عليه السلام:{مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ} [الصف 61/ 6] 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں