بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پڑھائی کی وجہ سے مکتب میں جماعت کرانے کاحکم


سوال

زید ایک شہر میں مدرسہ پڑھاتا ہے وہاں کے ذمہ داروں نے مدرسہ کی پڑھائی کے تین اوقات متعین کیے ہیں ،1۔ صبح  کے اوقات،2۔  دوپہر میں ڈھائی بجے سے لے کرپانچ بجے تک 3۔اور  مغرب  میں  ساڑھےچھ  بجے سے لے کر ساڑے آٹھ بجے تک۔

اس میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری نمازیں مسجد کے بجائے مدرسہ میں نابالغ بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں ہم دو استاد رہتے ہیں ،اور دوسری شاخ میں پانچ چھ استاد اور باقی طلبہ رہتے ہیں، اس صورت میں بغیر کسی عذر کے گھروں میں نماز پڑھنے والوں کے بارے میں جو وعیدیں آئی ہیں اس کے مصداق ہم بنیں گے؟ اور ہماری نمازیں مسجد کے بجائے مدرسہ میں پڑھنا کوئی قباحت ہے کہ نہیں ؟کیا کل قیامت میں اس بارے ہماری پکڑ ہوگی ، بہت سی مرتبہ ہم مدرسہ میں رہتے ہیں اور جماعت کھڑی ہوجاتی ہے ایسے میں ہم کیا کریں؟

ہم مکتب پڑھاتے ہیں مدرسہ کا وقت ایسا ہے کہ ہماری نمازیں مسجد میں ادا نہیں ہوتیں، عبادت خانہ میں ہوتی ہیں، بلڈنگ والوں نے عبادت خانہ بنایا ہے، حالانکہ اس کے آس پاس میں مسجد بھی ہے لیکن وقت الگ الگ ہونے کی وجہ ہم عبادت خانہ میں پڑھتے ہیں ایسی حالات میں عبادت خانہ میں پابندی ہمیشہ کے لیے کرنا۔۔ کیا آخرت میں ہم مجرم ہوں گے ؟

جواب

واضح رہے کہ فرض نماز کی جماعت کے ساتھ ادائیگی کی بہت تاکید احادیثِ مقدسہ میں آئی ہے،چناں چہ  حضرت ابوالدراداء رضی اللہ عنہ سے روایت   میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ" جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں  کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو" حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے،

  اور ظاہر  ہے کہ جماعت  کے ساتھ نماز صحیح معنوں میں   اسی وقت  اداہوسکتی ہے جب نماز  کو مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ اداکی جائے، ہر دکان، مکتب اور   گھر میں اگر جماعت کی نماز اداکی جائے تو اس کی اہمیت   ہی ختم ہوجائے گی، اس وجہ سے صورتِ مسئولہ میں سائل  اور دیگر اساتذہ کا   مسجد کی جماعت  میں صرف اس وجہ سے نہ جا نا کہ مکتب میں  اس وقت پڑھائی جاری ہوتی ہے شرعاً  یہ جائز نہیں ، بلکہ سب پر لازم ہے کہ   ایسی ترتیب بنائیں کہ   مکتب کی پڑھائی بھی جاری رہے اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز یں بھی اداہوتی رہیں،البتہ اگر بچوں کو نماز کی تربیت کرانے کی غرض سے مکتب میں جماعت کی نماز کرائی جاتی ہو اور اس کے لیے ایسی ترتیب بنائیں کہ ایک یا دو اساتذہ  مکتب میں نابالغ بچوں کے ساتھ نماز اداکریں اور باقی  مسجد میں جماعت کی نماز اداکریں اوراساتذہ کی ترتیب بدلتی رہے کہ  مستقل طور پر مسجد کی جماعت سے محرومی نہ ہو تو شرعاً اس کی گنجائش ہے۔

سنن نسائی میں ہے:

"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية" قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة."

(ج:2،ص: 106،رقم الحدیث:847، ط:المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة.")

فتاوی شامی میں ہے:

" والجماعة سنة مؤکدة للرجال قال الزاهدي: أرادوا بالتاكيد الوجوب - في مسجد أو غیرہ - قال ابن عابدین نقلاً عن القنیة: واختلف العلماء في إقامتها في البیت والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الأفضلیة."

(باب الإمامة،مطلب فی احکام المسجد،554/1،ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504101209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں