بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ کا شرعی حکم اور اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت


سوال

پراویڈنٹ فنڈ کا شرعی حکم، اوراس کی زکوٰۃ کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہوگا؟

جواب

واضح رہےکہ سرکاری اور بعض  نجی اداروں کی طرف سے اپنے ملازمین کے لیے پراویڈنٹ فنڈ کی جو سہولت فراہم کی جاتی ہے   اس فنڈ کےلیے بعض ادارے ہر ماہ ملازمین کی تنخواہ میں سے  ایک مخصوص  حصہ ملازمین کی اختیار کےبغیر جبراً  کاٹتے ہیں،جبکہ کچھ ادارے اپنے ملازمین کو اختیار  دیتے ہیں  کہ اگر چاہےتووہ اس فنڈنگ والے معاملے میں شمولیت اختیار کریں اوراگر نہ چاہےتو  نہ کریں، پھر بعض کمپنی یا ادارہ ہر ماہ اس مد میں جمع ہونے والی رقم  کے ساتھ اتنی ہی مقدار میں رقم اپنی طرف سے ملا کر اس کی تمویل کاری (فائنانسنگ)کرتی ہیں،جب کہ بعض ادارے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں ملاتے،بلکہ ملازمین کی جانب سے جو رقم جمع ہوتی ہے صرف اسی کی تمویل کاری کرتی ہیں،پھر ادارہ اس پراویڈنٹ فنڈ میں شرکت کرنے والے  ملازمین کو ان کے ریٹائرڈمنٹ کے بعد  اصل رقم  (یعنی ہرماہ تنخواہ میں سےکٹوتی کےبعد جمع ہونےوالی رقم)کی واپسی کےساتھ  کچھ اضافہ بھی دیتی ہیں۔

اس اضافہ کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر ادارہ از خود اپنی طرف سےتنخواہ میں سےکچھ رقم جبراً کاٹتا ہوتو  ایسی صورت میں ملازمین کےلیے اس اصل رقم کےساتھ ملنے والا اضافہ بھی شرعًاجائز ہوگا،کیونکہ یہ اضافہ ادارے کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا،البتہ اگر احتیاطاًیہ اضافہ نہ لیا جائے تو بہتر ہوگا، پس اصل رقم اور اضافہ دونوں پر وصول ہونے کےبعد زکوٰۃ بھی واجب ہوگی،وصولی سے قبل اس کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اور وصولی کے بعد  زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ  جب یہ رقم(اصل اور اضافہ)وصول ہوجائے تو اگر وصول کنندہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہےتو اس پر بقیہ مال کی زکوٰۃ کی ادائیگی کےساتھ اس کی بھی زکوٰۃ دینی ہوگی، اور اگر وہ صاحبِ نصاب نہیں ہےتو بقدرِ نصاب مال کے مالک بننےکےبعد سال گذرنے پر اس کی زکوٰۃ ادا کرےگا۔

اور اگر ادارہ اپنے ملازمین کو اس فنڈنگ میں شمولیت پر اختیار دیتاہے اور ملازمین اپنے اختیار سے اس فنڈ میں رقم کٹوتی کرواتے ہیں ،توشرعًاایسے ملازمین کےلیےصرف اصل رقم اور اگر ادارےنےکچھ رقم ملائی ہو تو انہیں دونوں رقوم کا لینا  جائز ہوگا،مگر اس پر اضافہ لینا جائز نہیں ہوگا، اور اگر اضافہ والی رقم  لے لی تو  مستحقِ زکوٰۃ  حضرات پر ثواب کی نیت کےبغیر اس رقم کاصدقہ کرنا ضروری ہوگا۔ اور اس صورت میں  بھی جب تک اصل رقم  وصول  نہ ہوجائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی،  زکوٰۃ  کی ادائیگی کا طریقہ یہ  ہوگا کہ  جب  اصل رقم وصول ہوجائے تو  اگر وصول کنندہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہےتو اس پر وصول شدہ مال کی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور اگر وہ صاحبِ نصاب نہیں ہےتو فی الحال اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی،بلکہ بقدرِ نصاب مال کے مالک بننےکےبعد سال گزرنے پراس پر  زکوٰۃواجب ہوگی۔

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(والأجرة) في الإجارة (لا تستحق بالعقد) أي بنفس العقد فلا يجب تسليمها عينا كان أو دينا عندنا؛ لأن حكم العقد يظهر عند وجود المنفعة وهي معدومة عند العقد ولذا يقام العين مقام المنفعة في حق إضافة العقد إلى المنفعة كما يقام السفر مقام المشقة فتجب الأجرة مؤجلا موقتا على تحقق أحد الأمور الآتي ذكرها.وعن هذا وقال (بل) تستحق (بالتعجيل) هو (أو بشرطه) أي بشرط التعجيل؛ لأن امتناع ثبوت الملك بنفس العتق لتحقق المساواة، فإذا عجل أو شرط التعجيل فقد أبطل المساواة التي هي حقه بخلاف الإجارة المضافة بشرط تعجيل الأجرة، فإن الشرط باطل لامتناع ثبوت الملك من التبدل للتصريح بالإضافة إلى وقت في المستقبل، والمضاف إلى وقت لا يكون موجودا قبله ولا يتغير هذا المعنى (أو باستيفاء المعقود عليه) لتحقق المساواة بينهما إذ العقد عقد معاوضة (أو التمكن منه) أي من استيفاء النفع إقامة للتمكن من الشيء مقام ذلك الشيء هذا إذا كانت الإجارة صحيحة فأما إذا كانت فاسدة لا يجب شيء بمجرد التمكن من استيفاء المنفعة إلا بحقيقة الانتفاع."

(کتاب الاجارۃ،ج:2،ص:370،ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

الدر المختار میں ہے:

"(وجاز التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا: أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره.ابن ملك (قبل قبضه) سواه (تعين بالتعيين) كمكيل (أولا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر وأجرة وضمان متلف) وبدل خلع وعتق بمال وموروث موصى به.والحاصل: جواز التصرف في الاثمان والديون كلها قبل قبضها.عيني (سوى صرف وسلم) فلا يجوز أخذ خلاف جنسه لفوات شرطه (وصح الزيادة فيه) ولو من غير جنسه في المجلس أو بعده من المشتري أو وارثه."

(کتاب البیوع،باب المرابحة والتولية،ص:427،ط:دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول. ووسط، وهو ما يجب بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي."

(کتاب الزکوٰۃ،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج:1،ص:175،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب في من ورث مالًا حرامًا،ج:5،ص:99،ط: ایچ ایم سعید کراتشی)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144509102300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں