بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پینشن کی شرعی حیثیت


سوال

پنشن کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یا مروجہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت اور تاحیات ملنے والی رقم جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ملاز م کو  ریٹائرمنٹ کے بعد ادارہ کی طرف سے پنشن کی مد میں جو رقم ملتی ہے تو وہ رقم  ادارے کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے؛ لہذا پنشن کی رقم ادارہ جس کے نام پر جاری کرے اس کے لیے اس کا وصول کرنا اور اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے بشرطیکہ پنشن دینے والا ادارہ سودی یا حرام کمائی والا ادارہ نہ ہو۔

پنشن کی رقم چوں کہ ادارہ کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے؛ اس لیے اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی البتہ اگر ملازم  نے اپنی اہلیہ یا کسی اور قریبی عزیز کو نامزد کیا تھا اور مذکورہ ادارے کا ضابطہ یہی ہے کہ ملازم کے نامزد کردہ کو پنشن دی جائے گی تو جس رشتہ دار کا نام درج کیا گیا ہےو ہی اس کا حقدار ہوگا۔ 

اسی طر ح سرکاری  اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیےجی پی فنڈ ،  پراویڈنٹ فنڈ  وغیرہ کی جو سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے  ملازمین اپنی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرواتے ہیں جو کہ ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے، اس کی چند صورتیں ہیں، ذیل میں وہ صورتیں، ان میں ملنے والے اضافے کا حکم بیان کیا جاتاہے:

بعض  ادارے اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتی ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتیں، جس کی وجہ سے ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے۔

بعض ادارے  کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ ادارہ  اپنے ملازمین کو اختیار دیتی ہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور ادارہ ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کرتی رہتی ہے۔

بعض ادارے  ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے؛ اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

پہلی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ ادارہ کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ۔ احتیاطاً یہ اضافہ نہ لیا جائے تو بہترہے۔

دوسری  قسم (اختیاری کٹوتی)  کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے  اور جتنی رقم ادارہ اپنی طرف سے ملاتا ہے، اتنی ہی جمع شدہ رقم وہ لے سکتے ہیں،  ان دونوں رقموں سے زائد رقم لینا شرعاًجائز نہیں ہوتا ۔

تیسری صورت ( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے  اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز ہوتا ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے  اور اس کے ساتھ ادارے نے اپنی طرف سے جو رقم ملائی ہے، ان دونوں رقموں پر  ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں ہوتا۔

باقی گریجویٹی کی رقم کی شرعی حیثیت بھی پنشن کی طر ح تبرع کی ہے ادارہ جس کو دے وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم."

(کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔"

(کتاب الفرائض جلد ۴ ص:۳۴۳ ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں