بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پینٹ شرٹ کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

۱) پینٹ شرٹ کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟

۲) جو اس کی مرمت کا کام کریں آیا اس کے لیے جائز ہے یا نا جائز ہے؟

۳) بعض جگہے تنگ ہوتی ہیں وہاں پینٹ شرٹ استعمال کیا جاتا ہے  یا کسی کمپنی وغیرہ میں پہننا لازم ہو اس وقت اس کا استعمال کرنا اور خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ پینٹ شرٹ اگر اتنی چست اورتنگ ہو جس سے جسم کےاعضائے مستورہ یااس کی ساخت اوربناوٹ ظاہر ہوتی ہو تو اس کو پہننے کی شرعاً  اجازت نہیں ہے، البتہ ڈھیلی ڈھالی پینٹ شرٹ جب کہ  (مرد کے) ٹخنے کھلے رکھنے کا اہتمام کیا جائے تو  پہننے کی گنجائش ہے، باقی نیک لوگوں کا لباس پہننا بہتر اور افضل ہے۔ 

اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

۱) ڈھیلی ڈھالے پینٹ شرٹ جس کی پہننے کی گنجائش ہے اس کی خرید و فروخت جائز ہے اور آمدنی حلال ہے۔ تنگ اور چشت پنٹ شرٹ کا چونکہ پہننا نا جائز ہے تو اس کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہےاور حاصل ہونے والی آمدن حلال نہیں ہوگی۔

۲) ڈھیلی ڈھالے پینٹ شرٹ جس کی پہننے کی گنجائش ہے اس کی مرمت کرنا جائز ہے اور اجرت بھی حلال ہے۔  تنگ اور چشت پنٹ شرٹ کی مرمت کرنا نا جائز ہے اور اجرت بھی حلال نہیں ہے۔

۳) تمہید میں گزر گیا کہ بہتر اور افضل نیک لوگوں کا لباس پہننا ہے البتہ اگر کوئی خاص مجبوری اور ضرورت ہے تو پھر ڈھیلی ڈھالی پینٹ شرٹ پہننے کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لايصف ما تحته) بأن لايرى منه لون البشرة احترازاً عن الرقيق ونحو الزجاج (قوله: ولايضر التصاقه) أي بالألية مثلاً، (وقوله: وتشكله) من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظًا لايرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئياً فينبغي أن لايمنع جواز الصلاة؛ لحصول الستر. اهـ. قال ط: وانظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقاً أو حيث وجدت الشهوة؟ اهـ. قلت: سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر، والذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول". 

(كتاب الصلاة،باب شروط الصلاة،مطلب فی سترة العورة،ج:1،ص:410،ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ثيابها ملتزقة بها بحيث تصف ما تحتها، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره اهـ.

وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من تأمل خلف امرأة ورأى ثيابها حتى تبين له حجم عظامها لم يرح رائحة الجنة» ولأنه متى لم يصف ثيابها ما تحتها من جسدها يكون ناظرا إلى ثيابها وقامتها دون أعضائها فصار كما إذا نظر إلى خيمة هي فيها ومتى كان يصف يكون ناظرا إلى أعضائها اهـ. أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه، قال في المغرب يقال مسست الحبلى، فوجدت حجم الصبي في بطنها وأحجم الثدي على نحر الجارية إذا نهز، وحقيقته صار له حجم أي نتو وارتفاع ومنه قوله حتى يتبين حجم عظامها اهـ وعلى هذا لا يحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها فيحمل ما مر على ما إذا لم يصف حجمها فليتأمل".

(كتاب الخظروالإباحة،فصل في اللبس،ج:6،ص:366،ط: سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: کوٹ پتلون پہننے کا حکم اور سر پر انگریزی بال رکھنے کے حق میں اب حدیث تشبہ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں الخ

جواب: اب اس مین اتنا تشدد نہیں، اتنا ضرور ہے کہ ان اطراف میں یہ صلحاء کا لباس نہیں، اس سے بچنا چاہیے، کراہت کا درجہ ہے الخ۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ،باب اللباس ج نمبر ۱۹ ص نمبر ۲۸۰، فاروقیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:زید کا کام کپڑے سینے کا ہے اور مختلف قسم کے کپڑے بنانے ہوتے ہیں جس میں کوٹ پتلون بھی تیار کرنا ہوتا ہے اور پتلون اس وقت اس قسم کی تیار کی جارہی ہے کہ رانوں میں پھنسی ہوتی ہے۔ جواب عنایت فرمائیں کہ کوٹ پتلون سینا جائز ہے نا جائز؟

جواب:اس طرح کا کپڑات دینے میں انکشاف ستر کا تو احتمال نہیں ہے یعنی اس سے مرد کا وہ حصہ بدن نہیں کھلتا جس کا چھپانا فرض ہے، رانوں میں اگر پتلون اس طرح پھنسی ہو کہ ران کی ہیئت ادھر سے ظاہر نہ ہوتی ہو تو کچھ اشکال نہیں البتہ خود ایسے کپڑے پہننا مکروہ ہے تواس وجہ سے ان کئ سینے میں بھی ایک قسم کی کراہت ہوگی لیکن اگر یہ لباس عامۃً مسلمان پہنتے ہوں تو کراہت بھی داخل نہیں ہوگی۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ،باب اللباس ج نمبر ۱۹ ص نمبر ۲۸۳، فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں