بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پینٹ شرٹ والے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

پینٹ شرٹ والے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام   کی پینٹ،ٹی شرٹ اگرڈھیلی ڈھالی ہو جس کے پہننے سے   اعضاء مستور  واضح اور نمایاں نہ ہوتے ہوں،اور پائنچے ٹخنوں سے اوپرہوں توایسی صورت میں بوقت ضرورت ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھی جاسکتی ہے ،اگرچہ بہتر  یہی ہے کہ شلوار کرتا پہن کر نماز پڑھائی جائے۔

اوراگراس کی پینٹ،ٹی شرٹ اتنی چست ہو ،جسے پہن کر اعضاء نمایا ں ہوتے ہوں، اس کے اوپر کوئی کرتایا قمیص بھی نہ ہو کہ جس سے کسی درجہ میں پردہ کا فائدہ حاصل ہوسکے تو ایسی صورت میں پینٹ، ٹی شرٹ پہننےوالےکی امامت مکروہ ہے،اس کےپیچھےنماز پڑھنامکروہ ہوگا،یعنی فرض اداہوجائے گا مگر کامل ثواب نہیں ملے گا،اورمستقل طورپراس کوکسی مسجد کاامام یامؤذن بنانا درست نہیں ہوگا۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"سوال : نماز کے دوران شلوار یا پینٹ ٹخنوں کے نیچے رکھنا مکروہ تحریمی ہے، اور یہ سنا ہے کہ شلوار یا پینٹ کو فولڈ کرنا (یعنی اس کو موڑ نا ) مکروہ تحریمی ہے، اور اگر کسی نے مکروہ تحریمی کا ارتکاب کیا تو نماز دوبارہ پڑھنی پڑھے گی، اور آج کل تو یہ عام ہے کہ تقریبا ہر شخص نماز پڑھنے سے پہلے شلوار یا پینٹ کو موڑتا ہے اور میں بھی اسی طرح کرتا تھا، تو کیا جو نماز میں نے شلوار کو موڑ کر پڑھی ہیں، ان کودوبارہ پڑھنا ہوگا ؟

جواب: شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا تکبر کی علامت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سختی کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے ۔ اس لئے اگر پاجامہ، شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو نماز سے پہلے اسے اوپر کر لینا چاہئے ، اور پینٹ کے اوپر اگر کرتا نہ ہو تو اس میں نماز مکروہ ہے، اور اگر اس کے پائینچے ٹخنوں سے نیچے ہوں تو مکروہ در مکروہ اور "ظلمات بعضها فوق بعض " کا مصداق ہے۔"

(کتاب الصلوۃ، شرائط نماز ،عنوان:پینٹ کے پائینچے موڑ کر نماز پڑھنا،  ج:3، ص:325،  مکتبہ لدھیانوی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والشرط سترها عن غيره) ولو حكما كمكان مظلم (لا) سترها (عن نفسه) به يفتى، فلو رآها من زيقه لم تفسد وإن كره. (وعادم ساتر) لا يصف ما تحته، ولا يضر التصاقه وتشكله

(قوله به يفتى) لأنه روي عن أبي حنيفة وأبي يوسف نصا أنه لا تفسد صلاته كما في المنية وغيرها (قوله فلو رآها من زيقه) أي ولو حكما بأن كان بحيث لو نظر رآها كما في البحر، وزيق القميص بالكسر: ما أحاط بالعنق منه قاموس (قوله وإن كره) لقوله في السراج فعليه أن يزره، لما روي عن «سلمة بن الأكوع قال قلت يا رسول الله أصلي في قميص واحد، فقال: زره عليك ولو بشوكة» بحر. ومفادة الوجوب المستلزم تركه للكراهة، ولا ينافيه ما مر من نصهما على أنها لا تفسد، فكان هذا هو المختار، كما في شرح المنية، وتمامه فيما علقناه على البحر".

(کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ، مطلب في ستر العورة،  ج:1، ص:409، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں