بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حیات النبی ﷺ سے متعلق غلط عقیدہ رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 پنجپیری شخص کے  پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائیں فرمائیں دلیل کے ساتھ!

جواب

 حیات الانبیاء سے متعلق جمہور اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں زندہ ہیں، اور ان کی حیات دنیوی حیات کے مماثل، بلکہ اس سے بھی قوی ہے، اور دیگر تمام لوگوں کی حیات سے انبیاءِ کرام علیہم السلام کی حیات ممتاز، اعلیٰ اور ارفع ہے، اور  وہ سب اللہ رب العزت کی ذات وصفات کے مشاہدہ میں مشغول ہیں،  اور مختلف قسم کی عبادات میں مشغول ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ سب نمازوں میں مشغول ہوں گے،  بلکہ ممکن ہے کہ کسی کو یہ مشاہدہ بصورتِ نماز ہوتا ہو اور کسی کو بصورتِ تلاوت ہوتا ہو اور کسی کو اور طریقہ سے، لہذا سب  مشاہدہ باری تعالیٰ میں ہیں ،البتہ عالمِ برزخ میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کی عبادات مکلف ہونے کے اعتبار سے نہیں ہیں، بلکہ  بلا مکلف ہونے کے صرف تلذ ذ اور لذت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔  جوشخص انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی قبور ميں ان كی حیات کا منکر ہو ، اس کی امامت میں نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔

اگر کسی کا عقیدہ مذکورہ عقیدے کے خلاف ہو تو وہ اہل السنہ والجماعہ سے خارج  ہے،  ایسے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے ؛ لہذا اگر کسی جگہ  ایسا امام  ہو   جو قبور میں  انبیاء علیہم السلام کی  حیات  کا منکر ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسری جگہ صحیح عقیدہ والے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی  چاہیے، نماز مع کراہت ہوجائے گی،  البتہ ایک صحیح العقیدہ باشرع امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر جتنا ثواب ملتا ہے،  وہ نہیں ملے گا۔

 ’’المہنّد علی المفنّد ‘‘ میں ہے:

"عندنا وعند مشائخنا : حضرۃ الرسالة صلي الله عليه وسلم حيٌّ في قبرہ الشریف وحیاتة صلي الله عليه وسلم دنیویّة من غیر تکلیفٍ، وھي مختصة بها وبجمیع الأنبیاء صلوات ﷲ علیھم والشھدآء لابرزخیَّة، کما ھي حاصلة لسائر المؤْمنین بل لجمیع الناس، نصّ علیہ العلّامة السیوطي في رسالته ’’إنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘حیث قال: قال الشیخ تقي الدین السبکي: حیاۃ الأنبیآء والشھدآء في القبر کحیاتھم في الدنیا ویشھد له صلاۃ موسٰی علیه السلام في قبرہ، فإنّ الصلاۃ تستدعي جسدًا حیًّا إلٰی اٰخر ما قال: فثبت بھذا أنّ حیاته دنیویَّة برزخیّة لکونھا في عالم البرزخ".

(الجواب: عن السوال الخامس: مسئلة حیاۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم(ص:21، 22)، ط۔ دار الاشاعت کراچی)

ترجمہ:  ’’ہمارے اور ہمارے تمام مشائخ کے نزدیک آں  حضرت ﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات، حیاتِ دنیوی کی سی ہے،بلامکّلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آں حضرت ﷺ اور تمام انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ ، یہ حیات خالص برزخی حیات نہیں ہے جو کہ تمام ایمان داروں کو حاصل ہے،  بلکہ سب انسانوں کو۔ چناں  چہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’إنباء الأذكیاء بحیاة الأنبیاء‘‘ میں بتصریح لکھاہے کہ: تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور شہداء کی حیات قبر میں ایسی ہے جیسی دنیا کی تھی اور حضرت موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم کو خبر دینا اس کی دلیل ہے؛ کیوں  کہ نماز  کی ہیئتِ   کذائیہ  زندہ جسم کو چاہتی ہے۔بس اس سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کی حیات دنیا کی حیات  جیسی ہے اور دونوں میں فرق یہ ہے : دنیوی حیات  میں تکلیف ِابلاغ ِ رسالت ودین کے ساتھ مامور تھے اور برزخ میں تکلیفِ ابلاغِ  رسالت ودین کی ذمہ داری آپ پر نہیں،  بلکہ آپ کے بعد آنے والے علماء پر ہے اور اس کو حیاتِ  برزخی اس لیے کہاجاتا ہے کہ عالمِ برزخ میں ہے۔‘‘

"القول البدیع في الصلاة علی الحبیب الشفیع"  میں ہے:

"نحن نؤمن و نصدق بأنه صلى الله عليه وسلم حيٌّ يرزق في قبره، و أن جسده الشريف لاتأكله الأرض، و الإجماع علی هذا".

(القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع: الباب الرابع: رسول الله حي علي الدوام، ص: ١٦٧،ط: مطبعة الإنصاف)

الحاوی للفتاوی میں ہے:

"حياة النبي صلي الله عليه وسلم في قبره هو و سائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً لما قام عندنا من الأدلة في ذلك، و تواترت به الأخبار الدالة علی ذلك".

(الحاوي للفتاوى: إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء (ص: ٥٥٤)، ط. رشيديه)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا عقیدہ نصوصِ شرعیہ سے اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، باتفاق علماءِ اہل السنۃ والجماعۃ خاص کر اکابرینِ علماءِ دیوبند، اس جماعتِ دیوبندیہ کے لیے معیار قرار دیتے ہیں، اس کے خلاف منکرینِ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم و الانبیاء والشہداء کو مبتدع اور اہلِ سنت و الجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں"۔

(جواہر الفتاوی جدید: حيات الانبياء (1/ 432)، ط.اسلامی کتب خانہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره ... إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع ...وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة.

(وفي رد المحتار:) (قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي»، قال في الحلية: ولم يجده المخرجون، نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعًا: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم» . اهـ."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 559، 560، 562)،ط. سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں