بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پنج پیری کا حکم


سوال

پنج پیری کے بارے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ پنج پیر علاقےکا نام ہے ،اس کی طرف منسوب لوگوں پر علی الاطلاق کوئی حکم لگانا دیگر علاقوں کی طرف منسوب لوگوں پر علی الاطلاق حکم لگانے کی طرح درست نہیں ،کیوں کہ حکم کا تعلق عقائد اور نظریات سے ہے علاقے میں رہنے یا اس کی طرف نسبت سے نہیں ،لیکن اگر پنج پیری سے مراد وہ لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ کی قبر مبارک میں حیات کا انکار کرتے ہیں تو ان کا یہ عقیدہ درست نہیں ،اوران کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اگر کسی جگہ امام  حیات الانبیاء علیہم السلام کا منکر ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسری جگہ صحیح عقیدہ والے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے مماتی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی  چاہے۔حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات، حیاتِ دنیوی کی سی ہے بلامکلف ہونے کے، اور یہ حیات مخصوص ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ، یہ حیات ِخالص برزخی حیات نہیں جو تمام ایمان داروں، بلکہ تمام انسانوں کو حاصل ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره ... إمامة عبد ... وفاسق ... ومبتدع ...

وفی الرد: وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم.

(قوله: أي صاحب بدعة) أي محرمة، وإلا فقد تكون واجبة، كنصب الأدلة للرد على أهل الفرق الضالة، وتعلم النحو المفهم للكتاب والسنة ومندوبة كإحداث نحو رباط ومدرسة وكل إحسان لم يكن في الصدر الأول، ومكروهة كزخرفة المساجد. ومباحة كالتوسع بلذيذ المآكل والمشارب والثياب كما في شرح الجامع الصغير للمناوي عن تهذيب النووي، وبمثله في الطريقة المحمدية للبركليأي صاحب بدعة، وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة، وكل من كان من قبلتنا (لا يكفر بها) حتى الخوارج الذين يستحلون دماءنا وأموالنا وسب الرسول، وينكرون صفاته تعالى وجواز رؤيته؛ لكونه عن تأويل وشبهة؛ بدليل قبول شهادتهم ... هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة، بحر بحثاً. وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة ... زاد ابن ملك: ومخالف كشافعي، لكن في وتر البحر: إن تيقن المراعاة لم يكره، أو عدمها لم يصح، وإن شك كره."

 (کتاب الصلوٰۃ ، باب الامامۃ،ج:1،ص: 559، ،ط: سعید)

"القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع"  میں ہے:

"نحن نؤمن و نصدق بأنه صلي الله عليه وسلم حي يرزق في قبره، و أن جسده الشريف لاتأكله الأرض، و الإجماع علی هذا".

(الباب الرابع: رسول الله حي علي الدوام، ص: 167،ط: مطبعة الإنصاف)

ترجمہ:" ہم ایمان رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ بے شک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور زمین  ان کے جسم مبارک کو نہیں کھاسکتی، اور اس پر اجماع ہے۔"

الحاوی للفتاوی میں ہے:

"حياة النبي صلي الله عليه وسلم في قبره هو و سائر الأنبياء معلومة عندنا علماً قطعياً لما قام عندنا من الأدلة في ذلك، و تواترت به الأخبار الدالة علی ذلك".

( إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء، ص: ٥٥٤، ط: رشيدية)

 ترجمہ:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی قبر میں حیات اور تمام انبیاء علیہم السلام کی  حیات علم قطعی کے ساتھ ثابت ہے بوجہ ان احادیثِ متواترہ  کے جو حیاتِ انبیاء پر دلالت کرتی ہیں۔"

جواہر الفتاوی میں ہے:

"حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم،  بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی حیات کا عقیدہ نصوصِ شرعیہ سے اور  اجماعِ امت سے ثابت ہے، باتفاق علماءِ اہل السنۃ والجماعۃ خاص کر اکابرینِ علماءِ دیوبند، اس جماعتِ دیوبندیہ کے لیے معیار قرار دیتے ہیں، اس کے خلاف منکرینِ  حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم و الانبیاء والشہداء کو  مبتدع  اور  اہلِ سنت و الجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں۔"

  (جواہر الفتاوی جدید ،ج:1،ص:432، ط: اسلامی کتب خانہ)

سیرۃ المصطفی میں ہے:

"آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم ’’کل نفس ذائقة الموت‘‘اور بمطابق وعدہ "انک میت انهم میتون" تھوڑی دیرکے لیے موت کامزہ چکھا، اورپھراللہ تعالیٰ نے آپ کوزندہ کردیا، اورزمین پرآپ کے جسم کوکھاناحرام کیا، پس آپ اب حیاتِ جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں،اورآپ کی یہ حیات حیات شہداء سے کہیں اکمل اورافضل ہے"۔

(ج؛3،ص:253،ط:کتب خانہ مظہری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں