قریب مسجد نہیں، ساتھ ایک مسجد ہے، جس میں پنج پیری ایک عالم امام ہے، جس کے پیچھے نماز پڑھنا مجھے مزہ نہیں دیتا، نہ وہ سکون ملتا ہے، جب کبھی اس کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں، پھر وہ نماز میں دوبارہ پڑھتا ہوں، اس صورت میں کیا کروں؟
اہلِِ سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ اور تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوات و التسلیمات وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں، ان کو روزی دی جاتی ہے، ان کے اَبدانِ مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں اور جسدِ عنصری کے ساتھ عالمِ برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے، اور یہ حیات، حیاتِ دنیوی کے مماثل، بلکہ بعض وجوہ سے حیاتِ دنیوی سے زیادہ قوی تر ہے، البتہ اَحکامِ شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں، روضہ اقدس میں جو درود پڑھا جاوے حضور ﷺ اس کو خود بلا واسطہ سنتے ہیں۔
جو لوگ حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں وہ اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہیں؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اگر کسی مسجد میں امام حیات الانبیاء علیہم السلام کا منکر ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے کسی دوسری جگہ صحیح عقیدہ والے امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے مماتی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی چاہیے، چاہے دل لگتا ہو یا نہ لگتا ہو، اور جو نمازیں اب تک ادا کی گئی ہوں، وہ بھی ادا ہوگئی ہیں، ان کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ ایک صحیح العقیدہ باشرع امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر جتنا ثواب ملتا ہے، وہ نہیں ملے گا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201283
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن