بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

پانی ٹھنڈا ہونے کی صورت میں جنبی کے لیے تیمم کرنا کیسا ہے؟


سوال

میں قلعہ عبداللہ کے ایک سرد علاقے میں رہتا ہوں جہاں پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میرا معدہ کمزور ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار منی زور سے خارج ہو جاتی ہے اور غسل فرض ہو جاتا ہے۔ لیکن پانی گرم کرنے میں وقت لگتا ہے اور نماز کا وقت نکلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مجھے غسل کے تیمم کا صحیح طریقہ بھی معلوم نہیں کہ تیمم کر کے نماز پڑھ لوں اور پھر پانی گرم کر کے غسل کرلوں، ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل پر غسل فرض ہوجائے اور پانی اتنا ٹھنڈا ہو کہ اس کے استعمال سے جان کا خطرہ ہو یا بیمار ہونے کا اندیشہ ہو، لیکن پانی گرم کرنے کی سہولت ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز نہیں اگر چہ وقت کی تنگی کی وجہ نماز  فوت ہونے کا خطرہ ہو، اگر نماز فوت ہوجائے تو اس کی قضاء کرلے، البتہ اگر پانی گرم کرنے کی سہولت نہ ہو تو ایسی صورت میں سائل کو تیمم کی اجازت ہے۔ اور اگر ٹھنڈے پانی سے نہانے کی صورت میں جان کا خطرہ نہ ہو اور نہ ہی  بیمار ہونے کا اندیشہ ہو جب کہ وقت کی تنگی وجہ سے پانی گرم کرنے کی صورت میں نماز کے فوت ہونے کا خدشہ ہو تو سائل پر لازم ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کر کے نماز ادا کرے۔

 تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاکی کی نیت کرکے پہلے ایک بار دونوں ہاتھ  مٹی پر مار کر انہیں جھاڑ دے، پھر انہیں سارے منہ پر پھیردے، اسی طرح دوسری بار دونوں ہاتھوں کو مٹی پرمار کے انہیں  ہاتھوں پر کہنیوں تک  اس طرح مل لے کہ کوئی جگہ باقی نہ رہ جائے، اس سے پاکی حاصل ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ وضو اور غسل دونوں صورتوں میں تیمم کا یہی طریقہ ہے۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل في هذه المسائل أن كل موضع يفوت الأداء لا إلى خلف يجوز له التيمم وفي كل موضع لا يفوت الأداء لا يجوز...لا يصح‌‌ التيمم لخوف فوت صلاة الجمعة وصلاة مكتوبة، وإنما يجوز التيمم لهما عند عدم القدرة على الماء حقيقة أو حكما."

(کتاب الطھارۃ، باب التیمم، ج:1، ص:165، ط: دار الکتاب الإسلامي)

وفیہ أیضاً:

"(قوله: أو برد) أي إن خاف الجنب أو المحدث إن اغتسل أو توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه تيمم سواء كان خارج المصر أو فيه وعندهما لا يتيمم فيه كذا في الكافي وجوازه للمحدث قول بعض المشايخ والصحيح أنه لا يجوز له التيمم كذا في فتاوى قاضي خان...ثم اعلم أن جوازه للجنب عند أبي حنيفة مشروط بأن لا يقدر على تسخين الماء ولا على أجرة الحمام في المصر ولا يجد ثوبا يتدفأ فيه، ولا مكانا يأويه كما أفاده في البدائع وشرح الجامع الصغير لقاضي خان، فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجه من الوجوه لا يباح له التيمم إجماعا."

(کتاب الطھارۃ، باب التیمم، ج:1، ص:149، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأصل أنه متى أمكنه استعمال الماء من غير لحوق ضرر في نفسه أو ماله وجب استعماله."

(الباب الرابع، الفصل الأول، ج:1، ص:28 ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و سننه ثمانية: الضرب بباطن كفيه، و إقبالهما، و إدبارهما، و نفضهما؛ و تفريج أصابعه، و تسمية، و ترتيب و ولاء."

(کتاب الطھارۃ، باب التیمم،ج:1، ص:231، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144612100116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں