پانی ضائع کرنے کا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے؟
پانی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، یہ روئے زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں (انسانوں، حیوانات اور نباتات) کے لیے حیات ‘ اور بقاءِ حیات کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ" (الأنبياء: ٣٠)
ترجمہ ومختصر تفسیر: "کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ آسمان اور زمین (پہلے) بند تھے (یعنی نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے کچھ پیداوار، اور اسی کو بند ہونا فرمادیا، چنانچہ جس زمانہ میں بارش نہیں ہوتی اور زمین سے کچھ پیدا نہیں ہوتا، اب بھی بند ہوتے ہیں) پھر ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت سے) کھول دیا (کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین سے نباتات اگنے لگیں۔۔۔) اور (بارش سے صرف نباتات ہی کو نمو نہیں ہوتا، بلکہ) ہم نے (بارش کے) پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے (خواہ حدوثاً خواہ بقاءً، خواہ بواسطہ خواہ بلاواسطہ‘ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے: وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ) کیا (ان باتوں کو سن کر) پھر بھی ایمان نہیں لاتے"۔
(تفسیر بیان القرآن، ۷/ ۴۵، ط: میرمحمد کتب خانہ)
نیز ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
"وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ (٩) وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ (١٠) رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ (١١)" (ق: ٩-١١)
ترجمہ ومختصر تفسیر: "اور (ہماری قدرت اس سے ظاہر ہے کہ) ہم نے آسمان سے برکت (یعنی نفع) والا پانی برسایا پھر اُس سے بہت سے باغ اُگائے اور کھیتی کا غلہ اور لمبی لمبی کھجور کے درخت جن کے گچھے خوب گوندھے ہوئے ہوتے ہیں، بندوں کے رزق دینے کے لیے، اور (دوسری نباتات مثل گیاہ وغیرہ جمانے کے لیے بھی) ہم نے اُس (بارش) کے ذریعہ سے مردہ زمین کو زندہ کیا(پس) اسی طرح (سمجھ لو کہ مُردوں کا) زمین سے نکلنا ہوگا"۔
(تفسیر بیان القرآن، ۱۱/ ۵۱، ط: میرمحمد کتب خانہ)
لہٰذا اسلام نے پانی کی اس عظیم نعمت کی قدردانی کرنے، اور اس کی حفاظت کرنے کی ترغیب دی ہے، اور اسے ضائع کرنے یا اس کے استعمال میں حد سے تجاوز کرنے پر نکیر کی ہے، حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ نے طہارت جیسی اہم عبادت (جس پر مسلمان کی دیگر بدنی عبادات کا مدار ہے) میں بھی پانی کے اسراف سے منع فرمایا، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے:
"حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا ابن لهيعة عن حيي بن عبد الله عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن عبد الله بن عمرو بين العاصي: أن النبي -صلي الله عليه وسلم - مر بسعد وهو يتوضأ، فقال: "ما هذا السرف يا سعد؟ "، قال: أفي الوضوء سرف؟، قال: "نعم، وإن كنت على نهر جار"."
(مسند أحمد، من مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، ٦/ ٤٨١، ط: دارالحديث)
ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد وضو کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: "اے سعد! یہ کیا اسراف ہے؟" انہوں نے عرض کیا کہ : "کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اگرچہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو۔‘‘
نیز قرآن مجید میں اسراف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے، جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:
"إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا" (بني اسرائيل: ٢٧)
"ترجمہ ومختصر تفسیر: "اور (مال کو) بے موقع مت اُڑانا (کیوں کہ) بیشک بے موقع اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند (یعنی اُن کے مشابہ ہوتے) ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے (کہ حق تعالیٰ نے اُس کو دولت عقل کی دی مگر اُس نے خداتعالیٰ کی نافرمانی میں اُس کو صرف کیا، اسی طرح مُبذِّرین کو دولت مال کی دی، مگر وہ خداتعالیٰ کی نافرمانی میں اُس کو صرف کرتے ہیں)"۔
(تفسیر بیان القرآن، ۶/ ۸۳، ط: میر محمد کتب خانہ)
اور آپ ﷺ کی مسنون دعاؤں میں سے ایک یہ دعا بھی ہے:
"رب اغفر لي خطيئتي وجهلي، وإسرافي في أمري كله"
(صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، ٨/ ٨٤، ط: دارطوق النجاة)
ترجمہ: "اے میرے رب، میرے گناہ، میری جہالت اور تمام معاملات میں میرے اسراف کو بخش دے"۔
لہٰذا پانی کو ضائع کرنا یا اس کے جائز استعمال میں بھی حد سے تجاوز (اسراف) کرنا‘ ناجائز ہے، مسلمان کو چاہیے کہ پانی کی حفاظت کرے اور اس کے استعمال میں اسراف نہ کرے، خواہ طہارت کے لیے ہو یا کسی اور استعمال کے لیے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"الإسراف صرف الشيء فيما ينبغي زائدا على ما ينبغي".
(كتاب الفرائض، ٦/ ٧٥٩، ط: سعيد)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"وأما السرف فحرام لقوله تعالى {ولا تسرفوا} الآية وقال جل وعلا {والذين إذا أنفقوا} الآية فذلك دليل على أن الإسراف والتقتير حرام وأن المندوب إليه ما بينهما، وفي الإسراف تبذير وقال الله تعالى {ولا تبذر تبذيرا}".
(كتاب الكسب، ٣٠/ ٢٦٦، ط: دارالمعرفة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ومكروهه: لطم الوجه) أو غيره (بالماء) تنزيها، والتقتير (والإسراف) ومنه الزيادة على الثلاث (فيه) تحريما ولو بماء النهر، والمملوك له. أما الموقوف على من يتطهر به، ومنه ماء المدارس فحرام.
وقال عليه في الرد: (قوله: والإسراف) أي بأن يستعمل منه فوق الحاجة الشرعية، لما أخرج ابن ماجه وغيره عن عبد الله بن عمرو بن العاص «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مر بسعد وهو يتوضأ فقال: ما هذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ فقال: نعم، وإن كنت على نهر جار» حلية".
(كتاب الطهارة، مطلب في الإسراف في الوضوء، ١/ ١٣٢، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن