بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی کی ٹینکی میں مینڈک مر جائے


سوال

پانی  کی  ٹینکی  میں  مرا  ہوا  مینڈک  پایا  گیا، صرف  پھولا  ہوا  تھا، پھٹا  نہیں  تھا، بدبو  بھی نہیں  آرہی  تھی، اس کا  کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مینڈک دو قسم کے ہوتے ہیں: (1) خشکی والا                                            (2) پانی والا۔ دونوں کا حکم جدا جدا ہے۔

اگر  اس ٹینکی میں گرنے والا  مینڈک پانی والا ہے تو اس کے ٹینکی میں مرنے کی صورت میں ٹینکی کا پانی ناپاک  نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ مینڈک خشکی میں زندگی بسر کرنے والا ہے، تو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں بہنے والا خون نہ ہو تو اس چھوٹے مینڈک کے ٹینکی میں گرنے سے بھی ٹینکی کا پانی  ناپاک نہیں ہوگا۔

اور اگر خشکی کا مینڈک بڑا ہو جس میں بہنے والا خون ہو (ایسے مینڈک  کی نشانی یہ ہے کہ اس کے انگلیوں کے درمیان پردہ نہیں ہوتا)  تو  اس مینڈک کے ٹینکی میں گرکر مرجانے کی صورت میں ٹینکی کو دیکھا جائے گا، اگر وہ ٹینکی(225) اسکوائر فٹ  سے بڑی ہو تو ٹینکی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا۔ اور اگر  (225)  اسکوائر فٹ  سے كم ہو تو  ٹینکی کا پانی ناپاک ہوگا اوراس ٹینکی  کا پورا پانی نکالنا ضروری ہوگا۔  اس دوران  (مینڈک مرنے سے لے کر ٹینکی پاک کرنے تک کے دوران) اس پانی سے وضو  یا غسل کرکے جو نمازیں ادا کی گئیں ہیں  ان کا اعادہ بھی  کرنا ہوگا، اور جو کپڑے  اور برتن دھوئے گئے ہیں  وہ دوبارہ پاک کرنے ہوں گے۔اوراگر مینڈک کے گر کر مرنے کا وقت معلوم ہوتو اس وقت سے جو نمازیں اس پانی سے وضو کرکے پڑھی گئی ہوں ان  نمازوں کا اعادہ لازم ہوگا اور اگر وقت معلوم نہ ہو،تو   چوں کہ مینڈک پھول گیا تھا، اس  لیے تین دن تین رات کی نمازوں کا لوٹانا ضروری ہوگا۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ويجوز) رفع الحدث (بما ذكر وإن مات فيه) أي الماء ولو قليلا (غير دموي كزنبور) ....... (ومائي مولد) ولو كلب الماء وخنزيره (كسمك وسرطان) وضفدع إلا بريًّا له دم سائل  -و هو ما لا سترة له بين أصابعه- فيفسد في الأصح، كحية برية إن لها دم وإلا لا (وكذا) الحكم (لو مات) ما ذكر (خارجه وبقي فيه) في الأصح، فلو تفتت فيه نحو ضفدع جاز الوضوء به لا شربه لحرمة لحمه.

"(قوله: وإلا لا)، و إن لم یکن للضفدع البریة و الحیة البریة دم سائل فلایفسد."

(الدرالمختار مع رد المحتار: كتاب الطهارة، باب المياه(1/ 183، 184، 185)، ط. سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وموت ما ليس له نفس سائلة في الماء لا ينجسه كالبق والذباب والزنابير والعقارب ونحوها. وموت ما يعيش في الماء فيه لايفسده كالسمك والضفدع والسرطان وفي غير الماء قيل: غير السمك يفسده، وقيل: لا، وهو الأصح".

(الفتاوى الهندية: كتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه، الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ (1/ 24)،ط. رشيديه)

حلبی کبیر میں ہے:

" وإذا کان الحوض عشراً في عشر فهو کبیر لایتنجس بوقوع النجاسة ... إذا لم یرلها أثر".

(حلبي کبیر: کتاب الطہارة، فصل في أحکام الحياض (ص: 98)، ط۔ سهیل أکادمي، لاهور)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(وإن انتفخ الحيوان) الواقع (فيها أو تفسخ) ولو خارجها ثم وقع فيها، ذكره الواني، وكذا إذا تمعط شعره، جوهرة (نزح جميع ما فيها) من الماء (صغر الحيوان) الواقع (أو كبر) فلا فرق بينهما لانتشار البلة في أجزاء الماء. هداية".

(اللباب في شرح الكتاب: كتاب الطهارة (1/ 26)، ط. المكتبة العلمية، بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا وجد في البئر فأرة أو غيرها ولايدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها، وإن كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله".

(الفتاوى الهندية: كتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه،الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ (1/ 20)،ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں