بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی کی پاکی و ناپاکی کے وسوسہ میں مبتلا شخص کیا کرے؟


سوال

جب مجھے پتہ چلا کہ پانی قلتین سے کم ہو تو نا پاک ہو جا تا ہے تو غسل ، وضو اور کپڑے دھونا مشکل ہو گیا، ہاتھ ناپاک ہو جاتے تو بالٹی سے پانی لینے کے لیے مگے کو ہاتھ لگاتا تو چوں کہ نجاست غیر مرئی تھی، اس لیے  اس مگ کو نا پاک سمجھتا۔ پھر اس مگے کے دھونے سے جو چھینٹیں ادھر ادھر پڑتیں  تو آس پاس کی چیزیں ناپاک سمجھتا۔ مگے کو دھوئوں تو ہاتھ پہ چھینٹیں، پھر مگے کو دھوؤں۔ ایک ٹانگ پر احتیاط سے پانی ڈالوں تو دوسری پر چھینٹیں پڑتیں۔ الغرض دھو دھو کے ٹینکیاں خالی ہو جاتی ہیں! میں کیا کروں۔ پھر ایک حدیث پڑھی جس کے مطابق پانی تب تک ناپاک نہیں ہوتا جب تک رنگ بو ذائقہ نہ تبدیل ہو۔اس حدیث پر عمل کرنا چاہیے؟ صحیح حدیث کے علاوہ کسی حدیث پر عمل نہ کروں۔ پھر میں پاک کیسے ہوؤں؟

جواب

جب تک کسی چیز کے نا پاک ہونے کا یقین اور غالب گمان  نہ ہوجائے، اس وقت تک اس کے ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگا یا جاسکتا اور جو شخص اس طرح کے وسوسے کی بیماری میں مبتلا ہو اسے چاہیے کہ وضو اور غسل میں جو مسنون طریقہ اور مقدار منقول ہے اس  سے تجاوز نہ کرے ،اور جب بھی وسوسہ اور وہم ہو تو اسے دھتکارنے اور دور کرنے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی اس بیماری کے لیے دعا گو بھی رہے۔ان شاء اللہ یہ بیماری جلد دور ہوجائے گی۔

نیز  وساوس سے حفاظت کے لیے ان دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے:

1. "أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ."

2. "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ  هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ  وَأَعُوْذُبِكَ رَبِّ مِنْ أَنْ یَّحْضُرُوْنَ."

3. "اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَ ذِكرَكَ وَاجْعَلْ هِمَّتِيْ وَ هَوَايَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰى."

بدائع الصنائع میں ہے:

"والمراد من قوله أول ما شك أن الشك في مثله لم يصر عادة له؛ لا أنه لم يبتل به قط، وإن كان يعرض له ذلك كثيرا لم يلتفت إليه، لأن ذلك وسوسة، والسبيل في ‌الوسوسة قطعها؛ لأنه لو اشتغل بذلك لأدى إلى أن يتفرع لأداء الصلاة، وهذا لا يجوز."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:؛33، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: لطمأنينة القلب) لأنه أمر بترك ما يريبه إلى ما لا يريبه، وينبغي أن يقيد هذا بغير ‌الموسوس،أما هو فيلزمه قطع مادة الوسواس عنه وعدم التفاته إلى التشكيك؛ لأنه فعل الشيطان وقد أمرنا بمعاداته ومخالفته رحمتي."

(کتاب الطھارۃ،1/ 118، 119، ط:دارالفکر)

نیزسائل نے جن دوروایات کاذکرکیاہے ان کاتعلق ماء جاری اورماء کثیر سے ہے،ان کےمتعلق   تفصیلی بحث  کےلئے  دیکھیے:

البحرالرائق شرح کنزالدقائق،کتاب الطہارۃ،الوضوء بالماء ولو خالطه شيء طاهر فغير أحد أوصافه،(88،85/1)ط:دارالکتاب الاسلامی

العرف الشذی شرح سنن الترمذی،باب ما جاء أن الماء طهور لا ينجسه شيء، (1/ 96تا100)ط:دارالتراث  العربی

البناية شرح الهداية،كتاب الطہارات  (1/ 361)ط:دارالکتب العلمیۃ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں