بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی کے کاروبار کو سامان سے زیادہ قیمت پر فروخت کرنا


سوال

1۔ میں تیس سال سے گھروں میں پانی پہنچانے کا کام کرتا ہوں، اس میں میرے ساتھ دو مزدور بھی کام کرتے ہیں،  اب ایک مزدور مجھ سے یہ کاروبار تین لاکھ روپے میں خریدنا چاہتا ہے، کیا میں اسے فروخت کرکے یہ رقم لے سکتا ہوں، جب کہ اس کاروبار میں کل سامان سوا لاکھ روپے کا ہے،  لیکن وہ مجھ سے پورا کاروبار خریدنا چاہتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

2۔ اگر میں  مذکورہ کاروبار فروخت نہ کروں اور میں مذکورہ ریڑھی  کو آٹھ ہزار روپے کے بدلے میں ماہانہ کرایہ پر دے دوں  تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں اگر سائل مذکورہ پانی کے چلتے کاروبار  کے صرف کسٹمر وغیرہ دوسرے کودے رہا ہے ،اور اس کے عوض پیسےلے رہا ہے تو یہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ شرعاً مال نہیں ہے، صرف حقِ مجرد ہے، اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، البتہ  مذکورہ کاروبار میں موجود سامان جس کی مالیت سوا  لاکھ ہے، اگر اس چلتے کاروبار کی وجہ سے اس کی قیمت  تین لاکھ روپے مقرر کرکے مکمل کاروبار  دوسرے شخص کو تین لاکھ روپے میں دے دیا جائے تو یہ جائز ہے۔

2۔  مذکورہ ریڑھی کو ماہانہ آٹھ ہزار روپے کرایہ پر دینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها."

(4 / 518، کتاب البیوع،  ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية."

(4 / 409، کتاب الاجارة، ط: رشيدية)

امدادالاحکام میں ہے :

’’... اور حقوق گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوق گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً  قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوق گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے۔ ‘‘

(4/452مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں