بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی فلٹر کر کے بیچنے کا کاروبار کرنے اور فلٹر شدہ پانی میں زم زم کا پانی ملا کر بیچنے کا حکم


سوال

 میں نے فلٹر واٹر بزنس شروع کیا ہے:

1- کیا میں فلٹر پانی کا کاروبار کرسکتا ہوں یا نہیں؟ 

2- کیا میں اپنے فلٹر پانی کے ساتھ آب زم زم کو مکس کرسکتا ہوں اور یہ درست ہوگا یا نہیں؟

جواب

(۱) ویسے تو پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہرایک کے لیے مباح بنایا ہے، اس کی خرید وفروخت منع ہے،     لیکن  اگر کوئی شخص پانی کو   برتن، مشکیزہ،  ٹینک، کین وغیرہ میں محفوظ کرلے تو وہ اس کی ملکیت قرار پاتا ہے۔ اب اس کو اختیار ہے خواہ مفت دے یا مال کے عوض بیچے، اس صورت میں ازروئے شرع اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے، لہٰذا آپ کے   لیے پانی فلٹر کر کے بیچنے کا کاروبار کرنا شرعًا جائز ہے، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے، البتہ  اس سلسلے میں اگر قانونی طور حکومتی اجازت نامہ  ضروری ہو تو اس کی اور  اورحفظانِ صحت کے اصولوں کی رعایت رکھی جائے۔

(۲) فلٹر شدہ پانی میں برکت کے حصول کے  لیے زم زم کا پانی ڈال کر بیچنا جائز ہے، البتہ ایسے پانی کو  خالص زم زم کا پانی کہہ کر  بیچنا درست نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إن صاحب البئرلایملك الماء ... و هذامادام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتیال، کمافي السواني فلاشك في ملکه له؛ لحیازته له في الکیزان، ثم صبه في البرك بعد حیازته".

(ردالمحتار ج : ۵،  کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملك الماء ص: ۶۷)

الفتاوى الهندية (3/ 121):

’’ لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره، هكذا في الحاوي، وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء، هكذا في محيط السرخسي۔ فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به، فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه، كذا في الذخيرة، وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة،كذا في محيط السرخسي.

وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب: أن الحوض إذا كان مجصصاً أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه ولكن يشترط أن ينقطع الجري حتى لا يختلط المبيع بغير المبيع‘‘۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں