بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی میں ٹینکی رکھ کر پانی بیچنا جائز ہے


سوال

 گاڑی میں ٹینکی رکھ کر پانی بیچنا کیسا ہے؟

جواب

ویسے تو پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہر ایک کے لیے مباح بنایا ہے، اس کی خرید وفروخت منع ہے، لیکن اگر کوئی شخص پانی کو برتن ، مشکیزہ، ٹینک ،کین وغیرہ میں محفوظ کرلیے تو وہ اس کی ملکیت قرار پاتا ہے، اب اس کو اختیار ہے خواہ مفت دے یا مال کے عوض بیچے، اس صورت میں ازروئے شرع اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے ،اگر پانی جمع کیا ہوا نہیں، بلکہ کنویں وغیرہ میں ہے تو کنویں وغیرہ پر آکر پانی لینے والوں کوروکنا شرعاً جائز نہیں ؛لہذاگاڑی میں ٹینکی رکھ کر پانی بیچنا جائز ہے ۔

جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے :عن ابی هریرة ان النبی صلی الله علیه وسلم قال:" لا یمنع فضل الماء" ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زائد پانی کو نہ روکاجائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ان صاحب البئرلایملک الماء و هذا مادام فی البئر أما اذا اخرجه منها بالاحتیال کما فی السوانی فلاشک فی ملکه له لحیازته له فی الکیزان ثم صبه فی البرک بعد حیازته"

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملک الماء، ج: 5،  ص:67، ط: سعيد) 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لا یجوز بیع الماء فی بئرہ ونہرہ، فإذا أخذہ وجعلہ فی جرّة أو ما أشبہہا من الأوعیة فقد أحرزہ فصار أحق بہ فیجوز بیعہ والتصرف فیہ"

(كتاب البيوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل السابع في بيع الماء والجمد،ج 3، ص: 121، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں