بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ رمضان اور جمعہ کا دن ایک ساتھ جمع ہونے پر واقع ہونے والے واقعات کی تحقیق


سوال

 ایک روایت ہے:في الخامس عشر من شهر رمضان ليلة الجمعة ستكون فزعة (نفخة) توقظ النائم، و تفزع اليقظان، وتخرج النساء من مخدعهن، و في هذا اليوم سيكون هناك الكثير من الزلازل.

  یہ حدیث کس حد تک صحیح ہے؟

جواب

یہ روایت اور اس سے ملتی جلتی كئی ر  وایات مختلف کتابوں میں موجود ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے  کہ جب رمضان کی  پندرہویں تاریخ اور جمعہ کی رات جمع ہو جائے، تو آسمان میں ایک گھبراہٹ والی ايسی چیخ ہو گی،  جو سونے والے کو جگا دے گی، اور جاگے ہوئے کو دہشت زدہ کردے گی، اور عورتیں اپنے پردہ خانوں سے باہر آجائیں گی، اور اس دن کثرت سے زلزلے آئیں گے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس دن آسمان میں ایک خوف ناک آواز ہوگی ، جس کی وجہ سے ستر ہزار لوگ دہشت ميں مبتلا ہو جائیں گے، ستر ہزار لوگ بے زبان  ہوجائیں گے،اورستر ہزار  نابینا کر دیے جائیں گے،اور ستر ہزار  بہرے ہو جائیں گے، اسی طرح سال كے ديگر مہینوں یعنی  شوال، ذی قعدہ، اور ذی الحج  وغيره میں  مختلف  واقعات کے ظہور کا ذکر ہے، محدث نعیم بن حماد رحمہ اللہ تعالی( 228ھ) "كتاب الفتن"میں  اس طرح کی کئی  روایات لائے ہیں: 

کتاب الفتن لنعیم بن حماد، رقم الحدیث:628، 638،  645،  1: 225، مکتبۃ التوحید، ط: الأولى، 1412ھ

"المعجم الکبیر للطبراني" کے الفاظ یہ ہیں:

"عن فيروز الديلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يكون في رمضان صوت، قالوا: يا رسول الله في أوله أو في وسطه أو في آخره؟ قال: لا، بل في النصف من رمضان، إذا كان ليلة النصف ليلة الجمعة يكون صوت من السماء يصعق له سبعون ألفا، ويخرس سبعون ألفا، ويعمى سبعون ألفا، ويصم سبعون ألفا، قالوا: يا رسول الله فمن السالم من أمتك؟ قال: من لزم بيته، وتعوذ بالسجود، وجهر بالتكبير لله، ثم يتبعه صوت آخر، والصوت الأول صوت جبريل، والثاني صوت الشيطان، فالصوت في رمضان، والمعمعة في شوال، وتميز القبائل في ذي القعدة، ويغار على الحجاج في ذي الحجة وفي المحرم، وما المحرم؟ أوله بلاء على أمتي، وآخره فرح لأمتي، الراحلة في ذلك الزمان بقتبها ينجو عليها المؤمن له من دسكرة تغل مائة ألف."

المعجم الكبير للطبراني ،18 :332، (ت: حمدي بن عبد المجيد السلفي)، مكتبة ابن تيمية، ط: الثانية

"المستدرك على الصحيحين" ميں یہ الفاظ ہيں:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: تكون هدة في شهر رمضان توقظ النائم وتفزع اليقظان، ثم تظهر عصابة في شوال، ثم معمعة في ذي الحجة، ثم تنتهك المحارم في المحرم، ثم يكون موت في صفر، ثم تتنازع القبائل في الربيع، ثم العجب كل العجب بين جمادى ورجب، ثم ناقة مقتبة خير من دسكرة تقل مائة ألف."

امام حاكم رحمہ اللہ تعالی ( 405ھ) نے اس روايت كے ايك راوی مسلمہ بن علی الخشنی پر کلام کیا ہے، اور اس  متن کو غریب کہا ہے، جبکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی( 748ھ) نے اس روایت کو موضوع بتلایا ہے۔

المستدرك على الصحيحين، كتاب الفتن والملاحم، الرقم: 8580، 4: 563، دار الكتب العلمية، ط: الأولى، 1411ھ

حافظ عقیلی رحمہ اللہ تعالی (322ھ) "الضعفاء الكبير" میں فرماتے ہیں:

"ليس لهذا الحديث أصل من حديث ثقة، ولا من وجه يثبت".

اس حدیث کی اصل کسی قابل اعتماد راوی  کی روایت سے ثابت نہیں، اور نہ کسی ایسی سند سے ثابت ہے جو پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو۔

الضعفاء الكبير للعقيلي ،3:  52، دار المکتبۃ العلمیۃ، ط: الأولى، 1404ھ

ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی( 597ھ) نے دونوں روایتوں کو"الموضوعات "میں نقل کیا ہے۔

الموضوعات لابن الجوزي، كتاب الملاحكم والفتن، 3: 191، المكتبة السلفية بالمدينة المنورة، ط: الأولى، 1388ه

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تعالی ( 751ھ)نے "المنار المنیف" میں ان تمام روایات کو موضوعات میں شمار کیا ہے، جن میں مختلف مہینوں میں مختلف واقعات کے وقوع کا ذکر ہے۔چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

"ومنها أحاديث التواريخ المستقبلة، وقد تقدمت الإشارة إليها، وهي كل حديث فيه إذا كانت سنة كذا وكذا حل كذا وكذا،  كحديث يكون في رمضان هدة توقظ النائم وتقعد القائم، وتخرج العواتق من خدورها، وفي شوال همهمة، وفي ذي القعدة تمييز القبائل بعضها إلى بعض، وفي ذي الحجة تراق الدماء،  وحديث يكون صوت في رمضان إذا كانت ليلة النصف منه ليلة الجمعة يصعق له سبعون ألفا ويصم سبعون ألفا."

( المنار المنيف في الصحيح والضعيف لابن قيم الجوزية،ص: 110 (ت: الشيخ عبد الفتاح ابو غدة)، المطبوعات الإسلامية

محدث عجلونی رحمہ اللہ تعالی (1162ھ) نے بھی اس جیسی تمام روایات کو موضوعات میں  شمار کیا ہے، چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

و"باب ظهور آيات القيامة في الشهور المعينة، ومن المروي فيه: يكون في رمضان هدة وفي شوال همهمة ... إلى غير ذلك ما ثبت فيه شئ ومجموعه باطل".

كشف الخفاء ومزیل الإلباس للعجلوني،  2:  423، مكتبة المقدسي، 1351ھ

 لہذا  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے، ایسی روایات کو بیان کرنے سے  اجتناب کیا جائے۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144109201630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں