بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ رمضان کو سویاں پکانے کا حکم


سوال

پندرہ رمضان المبارک كو سویاں پکانے کاکیا حکم ہے؟

جواب

کوئی بھی مباح کام اگر رسم ورواج کی حیثیت سے کیا جائے،اورشرعاً اس کا اپنے اوپر التزام کیا جائےکہ نہ کرنے کی صورت میں ملامت اور لعن طعن کیاجائے،اور مزید اس میں اسراف کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے یا کوئی مباح کام کسی غلط عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر کیا جائے، تو ایسی صورت میں وہ مباح کام بھی بدعت کے حکم میں داخل ہوجاتاہے،اور پھر اس سے بچنا لازم ہوجاتاہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر پندرہ رمضان کو سویاں رسم ورواج کے التزام کو پورا کرنے کے لیےپکائی جائیں اور شرعا  اس کی کوئی حیثیت سمجھی جائے تویہ بدعت ہوگی اور اس سے بچنا لازم ہوگا۔ 

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك.

ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية."

(الباب الاول فی تعریف البدع،ج:1،ص:53،ط:دار ابن عفان،سعودیہ)

جامع العلوم والحکم لابن رجب حنبلی میں ہے:

"فقوله - صلى الله عليه وسلم -: "كل بدعة ضلالة" من جوامع الكلم لا يخرج عنه شيء، وهو أصل عظيم من أصول الدين، وهو شبيه بقوله - صلى الله عليه وسلم -: "‌من ‌أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو رد".

فكل ‌من ‌أحدث شيئا ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة، والدين بريء منه، وسواء في ذلك مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة."

(الحدیث الثامن والعشرون ،ج:2،ص:783،ط:دار السلام ،قاھرۃ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409101365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں