مجھے 15 شعبان کے بارے میں معلوم کرنا ہے جو اس رات کے بارے میں کہا جاتا ہے نوافل کا پڑھنا اور دوسرا دن کو روزہ رکھنا اور جو اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پہ گئے تھے اس کی صحیح طور پر حقیقت اور اس کی رہنمائی فرمایئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز لے کر آرہے تھے تو حضرت موسی علیہ السلام نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی امت نماز نہیں پڑھے گی یا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان سے کہا تھا اور بیری کے پتوں سے کیوں نہاتے ہیں کیا اس کے نہانےسےسارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ؟برائے مہربانی اس کے بارے میں تفصیل سے مجھے وضاحت فرمائیں۔
شعبان کی پندرہویں شب جو ہمارےعرف میں”شب براءت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمانی دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟
ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:
۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب براءت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب براءت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔
۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا،اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثواب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔
بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔
واضح رہےکہ آپ ﷺ 15 شعبان کی رات کو معراج پر تشریف نہیں لے گئے ،بلکہ حضورﷺ مشہور روایت کے مطابق رجب کو معراج پر تشریف لے گئےتھےاور اسی موقع پر نمازیں فرض ہوئی تھیں۔(سیرت المصطفی288/1: ط،الطاف اینڈ سنز، از مولانامحمدادریس کاندہلوی رحمہ اللہ۔)
واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں، یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی : میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے، یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اورثواب میں پچاس ہی ہیں۔ ( سیرۃ المصطفی :250/1، ط دار الناشر، از مولانامحمدادریس کاندہلوی رحمہ اللہ)
15 شعبان کی رات غسل مستحب ہے،لیکن 15 شعبان کو بیری کے پتے پانی میں ڈال کر غسل کرناشرعی حکم نہیں ،بزرگوں کے تجربات میں سے ہوسکتا ہے،اس کو دینی امر اور شرعی حکم سمجھ کر نہیں کرنا چاہیے، اور نہ لازم سمجھناچاہیے،اور نہ اس سے گناہ معاف ہونے کی شرعاکوئی اصل ہے،البتہ بطور علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
شعب الإیمان میں ہے:
"خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة وخرجت عائشة تطلبه في البقيع فرأته رافعا رأسه إلى السماء فقال: "اكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله؟ " قالت: فقلت: يا رسول الله! ظننت أنك أتيت بعض نسائك. فقال: "إن الله يغفر ليلة النصف من شعبان أكثر من عدد شعر غنم كلب."
(ما جاء في ليلة النصف من شعبان: 354/5، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند)
تفسير الطبري ميں هے:
"عن عثمان بن محمد بن المغيرة بن الأخنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"تقطع الآجال من شعبان إلى شعبان حتى إن الرجل لينكح ويولد له وقد خرج اسمه في الموتى."
( تفسیر الطبري، 22/10، ط دار التربية والتراث - مكة المكرمة)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كانت ليلة النصف من شعبان، فقوموا ليلها وصوموا نهارها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا، حتى يطلع الفجر. "
(باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان: 443/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"حدثنا محمد بن كثير، أنا همام، عن أنس أخي محمد ، عن ابن ملحان القيسي ، عن أبيه قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا أن نصوم البيض ثلاث عشرة، وأربع عشرة، وخمس عشرة، قال: وقال: هن كهيئة الدهر."
(باب: في صوم الثلاث من كل شهر، 303/2، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وندب لمجنون أفاق)۔۔۔۔۔۔ (وعند حجامة وفي ليلة براءة)."
(ج:1/ص: 169 ط:دار الفكر - بيروت)
واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن