بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے نماز کا کیا حکم ہے؟


سوال

پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

شریعت مطہرہ نے احکام کے مکلف ہونے کا دار ومدار بلوغت پر رکھا ہے، لہذا لڑکے اور لڑکی پر بالغ ہونے کے بعد نماز اور روزہ رکھنا فرض ہے، بالغ ہونے کی علامت یہ ہےکہ لڑکے کو احتلام یا انزال ہوجائے اور لڑکی کو حیض آجائے یا وہ حاملہ ہوجائے،  اگر بلوغت کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو پندرہ(قمری) سال کی عمر ہونے پر انہیں بالغ شمار کیا جاتا ہے،  اور ان پر نماز اور روزہ رکھنا فرض ہوتا ہے، البتہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ جب بچہ/بچی سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دیا جائے اور دس سال کے ہونے کے بعد  نماز نہ پڑھنے پر سرزنش کی جائے، لہذا بچوں کو سات سال کی عمر سے ہی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحاً؛ لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنةً، به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا". 

(كتاب الحجر، فصل بلوغ الغلام بالاحتلام...، ج:6، ص:153، ط: سعيد)

مسند احمد و سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، قال: قال رسولِ الله صلى الله عليه وسلم: "‌مُرُوا أبناءكم ‌بالصلاة لسبِعِ سنينَ، واضْربوهم عليها لعشر سنين، وفرقُوا بينهم فِيِ المضاجع."

(أول مسند عبدالله بن عمرو بن العاص، ج:6، ص:295، رقم الحديث:6756، ط: دار الحديث، القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100328

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں