بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ سال سے کم عمر لڑکے کی فرض اور تراویح میں امامت


سوال

گیارہ یا چودہ سال کا بچہ فرض اور تراویح کی نماز کی جماعت کرواسکتا ہے؟

جواب

 فرض  اور نفل نماز (تراویح وغیرہ) میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ امام کی اقتدا  میں بالغ مقتدیوں کی  نماز  ادا نہیں ہوگی، ہاں نابالغ  لڑکا اپنے جیسے نابالغ بچوں کی امامت کرلے تو اس میں مضائقہ نہیں۔

بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات  ظاہر ہوجائیں تو  وہ امامت کرسکتاہے، علامات ظاہر نہ ہوں تو  قمری اعتبار سے پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا امامت نہیں کراسکتا،  فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ لڑکے میں کم سے کم بارہ سال کی عمر میں بلوغت کی علامات معتبر ہیں، اس سے پہلے نہیں۔

لہذا اگر بچے کی عمر قمری حساب سے بارہ سال پوری نہیں ہوئی ہے تو وہ یقینی طور پر نابالغ ہے، اور اگر عمر بارہ سال ہوچکی ہے، لیکن اس میں بلوغ کی علامت نہ پائیں جائیں تو  بھی وہ نابالغ ہے، اس کی اقتدا میں بالغ کی نماز نہیں ہوگی۔

الاختيار لتعليل المختار (1/ 58):
"قال: (ولاتجوز إمامة النساء والصبيان للرجال) أما النساء فلقوله عليه الصلاة والسلام: «أخروهنّ من حيث أخرهنّ الله»، وإنه نهي عن التقديم. وأما الصبيّ فلأنّ صلاته تقع نفلاً فلايجوز الاقتداء به، وقيل: يجوز في التراويح؛ لأنها ليست بفرض، والصحيح الأول؛ لأنّ نفله أضعف من نفل البالغ فلايبتنى عليه".
الفتاوى الهندية (1/ 85) :
"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز، كذا في الخلاصة ... المختار أنه لايجوز في الصلوات كلها، كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں