گیارہ یا چودہ سال کا بچہ فرض اور تراویح کی نماز کی جماعت کرواسکتا ہے؟
فرض اور نفل نماز (تراویح وغیرہ) میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، نابالغ امام کی اقتدا میں بالغ مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، ہاں نابالغ لڑکا اپنے جیسے نابالغ بچوں کی امامت کرلے تو اس میں مضائقہ نہیں۔
بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات ظاہر ہوجائیں تو وہ امامت کرسکتاہے، علامات ظاہر نہ ہوں تو قمری اعتبار سے پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا امامت نہیں کراسکتا، فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ لڑکے میں کم سے کم بارہ سال کی عمر میں بلوغت کی علامات معتبر ہیں، اس سے پہلے نہیں۔
لہذا اگر بچے کی عمر قمری حساب سے بارہ سال پوری نہیں ہوئی ہے تو وہ یقینی طور پر نابالغ ہے، اور اگر عمر بارہ سال ہوچکی ہے، لیکن اس میں بلوغ کی علامت نہ پائیں جائیں تو بھی وہ نابالغ ہے، اس کی اقتدا میں بالغ کی نماز نہیں ہوگی۔
الاختيار لتعليل المختار (1/ 58):
"قال: (ولاتجوز إمامة النساء والصبيان للرجال) أما النساء فلقوله عليه الصلاة والسلام: «أخروهنّ من حيث أخرهنّ الله»، وإنه نهي عن التقديم. وأما الصبيّ فلأنّ صلاته تقع نفلاً فلايجوز الاقتداء به، وقيل: يجوز في التراويح؛ لأنها ليست بفرض، والصحيح الأول؛ لأنّ نفله أضعف من نفل البالغ فلايبتنى عليه".
الفتاوى الهندية (1/ 85) :
"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز، كذا في الخلاصة ... المختار أنه لايجوز في الصلوات كلها، كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن