بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ سال کی عمر میں روزہ کا حکم


سوال

میری عمر 2012ء میں اسلامی کیلنڈر کے مطابق پندرہ سال کی تھی لیکن عیسوی کیلنڈر کے مطابق ابھی پندرہ سال مکمل نہیں ہوئے تھے ؛ اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ جب عیسوی کیلنڈر کے مطابق پندرہ سال مکمل ہوں گے تب روزے فرض ہوں گے ۔لہذا میں نے روزے نہیں رکھے تو اب میں کیا کروں؟ صرف قضا کروں یا قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں ۔ راہ نمائی فرمائیں ۔ اور اس رمضان المبارک کے دوران اگر میں نے کوئی روزہ رکھا ہو پھر جان بوجھ کر توڑ دیا ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

پندرہ سال کی عمر تک  اگر بالغ ہونے کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو  (اسلامی ) قمری اعتبار سے پندرہ سال کی عمر ہوتے ہی بچہ کو  شرعًا بالغ  شمار کیا جاتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  15 سال کی عمر کے بعد  جتنے روزے  نہیں رکھے ، ان کی قضا لازم ہوگی ، کفارہ نہیں ۔اگر پندرہ سال سے پہلے بلوغت کی علامت ظاہر ہوگئی تھی تو اس وقت  سےروزوں کی قضا کرنا لازم ہے۔

اور اس رمضان میں   جتنے  روزے  توڑے ہوں ان کی قضا اور کفارہ  لازم ہوگا، تاہم   اگر  سب روزے کھا پی کر توڑے ہیں  تو  ان سب روزوں کی طرف سے ایک کفارہ دینا کافی ہوگا۔

روزے کا کفارہ یہ ہے کہ مسلسل  60 روزے رکھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: عرضت على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عام أحد وأنا ابن أربع عشرة سنة، فردني، ثم عرضت عليه عام الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة، فأجازني، فقال عمر بن عبد العزيز: هذا فرق ما بين المقاتلة والذرية. متفق عليه. 

يريد إذا بلغ الصبي خمس عشرة سنة دخل في زمرة المقاتلين، وأثبت في الديوان اسمه، وإذا لم يبلغها عد من الذرية. في شرح السنة: العمل على هذا عند أكثر أهل العلم. قالوا: إذا استكمل الغلام أو الجارية خمس عشرة سنة كان بالغا، وبه قال الشافعي وأحمد وغيرهما، وإذا احتلم واحد منهما قبل بلوغه هذا المبلغ بعد استكمال تسع سنين يحكم ببلوغه.

وكذلك إذا حاضت الجارية بعد تسع ولا حيض ولا احتلام قبل بلوغ التسع. وفي الهداية: بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال إذا وطئ، فإن لم يوجد ذلك فحتى يتم له ثمان عشرة سنة، وبلوغ الجارية بالحيض والاحتلام والحبل؛ فإن لم يوجد ذلك فحتى يتم لها سبع عشرة سنة، وهذا عن أبي حنيفة رحمه الله، وقالا إذا تم للغلام والجارية خمس.

عشرة سنة فقد بلغا، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وهو قول الشافعي رحمه الله اهـ. وأول وقت بلوغ الغلام عندنا استكمال اثنتي عشرة سنة، وتسع سنين للجارية. (متفق عليه)."

( كتاب النكاح، باب بلوغ الصغير وحضانته في الصغر، الفصل الأول، ٦ / ٢٢٠٧ - ٢٢٠٨، ط: دار الفكر)

البنایہ شرح الہدایہ للعینی میں ہے:

"وقالا: إذا تم للغلام والجارية خمس عشرة سنة، فقد بلغا وهو رواية عن أبي حنيفة وهو قول الشافعي رحمه الله) ش: وأحمد أيضا، وعليه الفتوى."

( كتاب الحجر، فصل في حد البلوغ، ١١ / ١١٠، ط: دار الكتب العلمية)

ملتقي الابحر میں ہے:

"يحكم ببلوغ الغلام بالاحتلام أو الإنزال أو الإحبال وببلوغ الجارية بالحيض أو الاحتلام أو الحبل فإن لم يوجد شيء من ذلك فإذا تم له ثماني عشرة سنة ولها سبع عشرة سنةوعندهما إذا تم خمس عشرة سنة فيهما وهو رواية عن الإمام وبه يفتي وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها تسع سنين وإذا راهقا وقالا بلغنا صدقا وكانا كالبالغ حكما."

( كتاب الحجر، فصل، ص: ٦٠ - ٦١، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں