زید کی بیوی کے پاس 15 لاکھ کا سونا ہے، تولہ معلوم نہیں ہے اور نہ کوئی رقم ہے، نہ کوئی ایسی چیز موجود ہے، جس کو سال بھر میں استعمال نہ کیا ہو، اب زکوة 15 لاکھ کے حساب سے ادا کی جائے یا تولہ معلوم کر کے کیا جائے ،رہی بات اگر یہ سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہو پھر زکوةادا کرنی ہوگی یا نہیں ؟
واضح رہے کہ اگر کسی عاقل بالغ مسلمان کی ملکیت میں صرف سونا ہو، سونے کے ساتھ اس کے پاس چاندی، مالِ تجارت اور کرنسی میں سے کچھ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں صرف سونے کے نصاب کا اعتبار ہوتا ہے اور سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ، یعنی: ۸۷/ گرام ۴۸۰/ ملی گرام ہے ۔ پس جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا موجود ہو تو سال گزرنے پر اس کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں زید کی بیوی کے پاس 15 لاکھ کا سونا موجود ہے اور اس کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں تو مذکورہ سونے کا تولہ معلوم کرلیا جائے ، اگر یہ ساڑھے سات تولہ ہے تو اس کے حساب سے زکات ادا کرنا اس پر واجب ہے اور اگر اس سے کم ہے تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی ۔ زکاۃ کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں:
1- آسان صورت یہ ہے کہ جس دن سال پورا ہو اس دن مارکیٹ میں اس سونے کی مالیت معلوم کرکے ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کردیا جائے۔
2- سنار سے وزن کراکے اس سونے کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فی صد وزن) تڑوا لیا جائے اور اس سونے کو زکاۃ میں ادا کردیا جائے۔
حديث میں ہے :
"عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ببعض أول الحديث قال: "فإذا كانت لك مئتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء - يعني في الذهب - حتى يكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا، وحال عليها الحول، ففيها نصف دينار، فما زاد، فبحساب ذلك."
(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ السائمہ،ج:۳،ص:۲۴،دارالرسالۃ العالمیۃ)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة".
(کتاب الزکات،الباب الثالث فی زکات الذھب والفضۃ،ج:1،ص:178،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100495
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن