بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ دن سے کم کے لیے آبائی گاؤں جاکر نماز کا حکم


سوال

میں مانسہرہ کا آبائی باشندہ ہوں، میری زمین اور گھر وہاں موجود ہے، لیکن عرصہ دراز ہوا ہے کہ میں فیملی کے ساتھ مستقلاً کراچی میں مقیم ہوں، ذاتی گھر و کاروبار کراچی میں ہی ہے، اب اگر میں کسی ذاتی کام سے یا کسی اور وجہ سے وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے جاتا ہوں تو کیا وہاں پر مجھے قصر نماز ادا کرنی ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے مانسہرہ سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  کراچی میں رہنے کے ساتھ  ساتھ  یہ بھی نیت ہے کہ مانسہرہ کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے، تو  آپ وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں، لیکن اگر  آپ نے یہ نیت کی ہے کہ اب مانسہرہ  ہمارا وطن اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت کراچی ہجرت کرلی ہے اور  اب وہاں رہنے کا ارادہ نہیں ہے،تو اب آپ  پندرہ دن سے کم کے لیے مانسہرہ جائیں گے تومسافر ہوں گے اور قصر نمازپڑھیں گے۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق (2 / 147):

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. ا هـ

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں