بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ دن سے کم قیام کی صورت میں قصر کا حکم


سوال

میں ضلع مظفرگڑھ کامستقل رہائشی ہوں اور ایک ادارےمیں کام کرتاہوں جو اپنے ملازمین کو رہائش گاہ مہیا کرتا ہے ،اس سلسلے میں مجھے رہائش لاہور میں ملی ہوئی ہے،لیکن ملازمت مری میں ہے،اب لاہور یا مری دونوں جگہوں پر میرا قیام 15 دن سے کم ہوتا ہے،ایسی صورت میں میرے لئے نماز کا کیا حکم ہے ؟کیا دونوں جگہوں پر سفری نماز ادا کرنی ہو گی یا صرف لاہور میں سفری نماز ادا کرنی ہوگی ؟جب کہ لاہور میں صرف 2/  4دن اور مری میں 10/ 12دن رہتا ہوں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل اپنی عارضی قیام گاہ (لاہور) اور ملازمت کی جگہ (مری )میں اگر پندرہ دن سے کم قیام کرتاہے،اورلاہور اورمری میں اس کا سامان وغیرہ بھی موجود نہیں ہےتوان جگہوں پر مسافر کہلائے گااوروہ نماز قصر کرےگا،اوراگرپندرہ دن یااس سےزائدکی نیت سےاقامت کرےگاتومقیم ہوگا،اسی طرح اگران جگہوں پرایک مرتبہ پندرہ دن سےزائد کی نیت سےاقامت اختیار کرلی تھی اوراب ان جگہوں پر اس کا کمرہ اورسامان موجود رہتاہےتو یہ ان جگہوں پر مقیم شمارہوگا۔

البحرالرائق میں ہے:

" وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،147/2،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية."

(كتاب الصلوة، الباب الخامس عشر فی صلاة المسافر،1/ 139، ط: رشيدیہ)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المحيط، ‌ولو ‌كان ‌له ‌أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،147/2،ط:دارالکتاب الاسلامی)

احسن الفتاوی میں ہے:

"عنوان:سفرمع ترک اثقال سےوطن اقامت باطل نہیں ہوتا:

عبارات پر غورکرنےسےمعلوم ہوتاہےکہ وطن اقامت سےمحض سفرکرناہی مبطل نہیں بلکہ دراصل سفربصورت ارتحال مبطل ہے،یعنی یہ بطلان اس وقت ہوگاجب کہ وطن اقامت سےبنیتِ سفرجاتےوقت اپناسامان وغیرہ بھی ہمراہ لےجائے،جس سےیہ سمجھاجائےکہ شخص مذکور کاارادہ فی الحال یہاں واپس آنےکانہیں ہےیہی وجہ ہےکہ وطن اصلی سفرسےباطل نہیں ہوتاکیوں کہ وطن اصلی سےسفرکرناتوطن بالوطن الاصلی یا اعراض عن التوطن پر دلالت نہیں کرتا،بلکہ اہل وعیال وغیرہ کی موجودگی میں اس امر پر دلالت کرتی ہےکہ جانےوالا اس مقام پر واپس لوٹ آنے کےقصد وارادہ سےجارہاہےحتی کہ اگروطن اصلی سےجانےوالا اہل وعیال سمیت چلاجائےاوردوسری جگہ وطن اصلی بنالےتو پہلے وطن کی وطنیت بھی ختم ہوجاتی ہے،جیساکہ تمام کتب فقہ میں مصرح ہے،اس سےمعلوم ہوا کہ دراصل بطلان وطن کا مدارسفروغیرہ مع ترک توطن یا اعراض عن التوطن پرہےمحض خروج بنیت سفر پر نہیں۔"

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،108،109/4،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں