بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پانڈا پرو میں سبسکرپشن کرانے کا حکم


سوال

حضرت آن لائن کھانا منگوانے کی مشہور ایپ  foodpanda نے ایک چیز متعارف کرائی ہے جس کو pandapro کہا جاتا ہے۔

اس میں کسٹمر کو ہر ماہ پیسے بھرنے ہوتے ہیں (subscription fee) جو نا قابل واپسی ہے اور بدلہ میں اسے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں مثلا:

۱) کچھ مفت ڈیلوریاں

۲) مخصوص ہوٹلوں میں جاکر کھانا کھانے پر ڈسکاؤنٹ ۔

۳) اسی طرح مخصوص  (یا کسٹمر کے منتخب کیے ہوئے کچھ) ہوٹلوں سے کھانا منگوانے پر ڈسکاؤنٹ

pandpro کی  شرائط و ضوابط مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہیں :

https://www.foodpanda.pk/contents/subscription-terms

رہنمائی فرمایے گا کہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

سائل کی فراہم کردہ معلومات اور ویب سائٹ پر موجود معلومات سے pandpro کے متعلق مندرجہ ذیل معلومات حاصل ہوئی ہے:

۱) panda pro ایک سبسکرپشن پروگرام (subscription programme) ہے یعنی صارف کچھ سہولیات  اور فوائد کے عوض فوڈ پانڈا کمپنی کو پیشگی  رقم ادا کرتا ہے ۔ (پانڈا پرو کی شرائط و ضوابط کی شق نمبر 1.1)  ۔

۲)  سہولیات اور فوائد کی تفصیل یہ ہے کہ فوڈ پانڈا کی طرف سے صارف کہ ماہانہ  ۳۰ مفت ڈیلوری کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور چند مختلف متعین ریسٹورینٹ پر مستقل ڈسکاؤنٹ حاصل ہوتا ہے۔

۳) پانڈا پرو کا حصہ بننے والا شخص اگر مہینے کے دوران مفت ڈیلوری اور ڈسکاؤنٹ استعمال نہ کرسکا تو وہ ضائع ہوجائیں گی اور اگلے ماہ میں منتقل نہیں ہوں گی (پانڈا پرو کی شرائط و ضوابط کی شق نمبر 4.2)۔ یعنی اگر صارف نے کسی مہینے ۳۰ ڈیلوریاں استعمال نہیں کیں تو اگلے ماہ ایسا نہیں ہوگا کہ ۶۰ مفت ڈیلوریاں حاصل ہوں۔

۴) سبسکرپشن کی تین قسم کی ترتبیب ہیں: ۱) ماہانہ : ہر ماہ سبسکرپشن فیس کی کٹوتی ہوگی۔ ۲)  ۶ ماہ : یعنی ۶ ماہ کی رقم ایک ساتھ کمپنی وصول کرلیتی ہے۔ ۳) ۱۲ ماہ: یعنی پورے سال کی رقم کمپنی ایک ساتھ وصول کر لیتی ہے۔

۴)  اگرصارف  درمیان میں سبسکرپشن منسوخ کرے گا تو صارف نے جس سبسکرپشن کی ترتیب کا انتخاب کیا ہوگا اس وقت تک  صارف کو سہولیات اور فوائد میسر رہیں گے اور فوڈ  پانڈا کمپنی کسی قسم کی رقم کی واپسی کی ذمہ دار نہیں ہوگی (پانڈا پرو کی شرائط و ضوابط کی شق نمبر 5.2 اور 5.3)۔ یعنی اگر کسی ۶ ماہ والی ترتیب کا انتخاب کیا ہے اور وہ ۶ ماہ کے پیسے ادا کرچکا ہے اور وہ ۳ ماہ بعد  اب منسوخ کرتا ہے تو اس کو سہولت ۶ ماہ تک میسر رہیں گی اور وہ کمپنی سے آدھی رقم واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فوڈ پانڈا کمپنی سبسکرپشن فیس دو چیزوں کے عوض لیتی ہے، نمبر ۱ : ڈیلوری (یعنی کھانے پینے کی اشیاء ایک جگہ سے وصول کر کے صارف کو پہنچانااور نمبر ۲ : ڈسکاؤنٹ۔

نیز صورت مسئولہ میں  کمپنی کا دونوں ہی سہولت کے عوض فیس لینا شرعا جائز نہیں ہے ، لہذا یہ معاملہ شرعا جائز نہیں ہے اور سائل کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دونوں سہولیات کے عوض فیس کی وصولی ناجائز ہونے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

۱) ڈیلوری:

 ڈیلوری فی نفسہ ایک خدمت ہے اور اس کے عوض جو رقم لی جائے وہ اجرت ہے ، مذکورہ صورت میں فوڈ پانڈا کمپنی صارف کے لیے شرعا اجیر مشترک (یعنی کمپنی ڈیلوری کی خدمت ایک سے زیادہ اشخاص کو مہیا کرتی ہے) ہے اور اجیر مشترک عمل کرنے کے بعد اجرت کا مستحق ہوتا ہے، عمل سے پہلے وہ اجرت کا مستحق نہیں ہوتا ہے۔

پس صورت مسئولہ میں ڈیلوری کا معاملہ اس طرح ہونا کہ صارف چاہے ڈیلوری کرائے یا نہ کرائے یا پھر ۳۰ کی مقدار سے کم تعداد میں ڈیلوری کرائے ،بہر صورت کمپنی ۳۰ ڈیلوریوں کے برابر سبسکرپشن فیس کی مستحق ہوگی (شرائط و ضوابط کی شق نمبر 4.2)   جائز نہیں ہے اور یہ  اجارہ  شرعا فاسد ہے۔

نیز شرائط و ضوابط میں یہ  شرط  کہ کینسل کرنے کی صورت میں بھی معاملہ کینسل نہیں ہوگا بلکہ ماہانہ پیکج والے کی ایک ماہ کی فیس، ۶ ماہ پیکج والے کی ۶ ماہ کی فیس اور سالانہ پیکج والے کی سالانہ فیس واپس نہیں کی جائے گی( شرائط و ضوابط کی شق نمبر 5.2 اور 5.3)، اس شرط کی وجہ سے بھی معاملہ فاسد ہے۔

۲)  ڈسکاؤنٹ:

مختلف ریسٹورینٹس پر ڈسکاؤنٹ کے فائدہ کے عوض سبسکرپشن فیس لینا شرعا جائز نہیں ہے کیونکہ ڈسکاؤنٹ نہ کوئی ایسی چیز جس کو فروخت کر کے اس کا عوض لیا جائے اور نہ کوئی ایسی خدمت یا منفعت ہے جس کے عوض اجرت لی جائے۔ یہ محض ایک طرح کا حق ہے یعنی اس فیس کے عوض سائل کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ اس وہ مختلف ریسٹورینس میں ڈسکاؤنٹ کا حق دار ہوجاتا ہے۔  اور حقوق کی خرید و فروخت شرعا جائز نہیں ہے لہذا سبسکرپسن فیس کے عوض ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔ 

محیط برہانی میں ہے:

"الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل."

(کتاب الاجارات، فصل ثامن و عشرون، ج نمبر۷، ص نمبر ۵۸۶، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال وحمال ودلال وملاح، وله خيار الرؤية في كل عمل يختلف باختلاف المحل مجتبى

(قوله حتى يعمل) ؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا فلا بد من العمل زيلعي والمراد لا يستحق الأجر مع قطع النظر عن أمور خارجية؛ كما إذا عجل له الأجر أو شرط تعجيله كما في السعدية، وقدمناه أوائل كتاب الإجارة، وتقدم هناك أنه لو طلب الأجر إذا فرغ وسلمه فهلك قبل تسليمه يسقط الأجر، وكذا كل من لعمله أثر، وما لا أثر له كحمال له الأجر كما فرغ وإن لم يسلم ."

(کتاب الاجارہ،باب ضمان الاجیر، ج نمبر ۶، ص نمبر ۶۴، ایچ ایم سعید)

شرح مجلۃ الاحکام لعلی حیدر میں ہے:

"(المادة 424) :الأجير المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل.

أي لا يستحق الأجرة إلا بعمل ما استؤجر لعمله..... فالأجير المشترك لا يستحق الأجرة بمجرد استعداده كالأجير الخاص، ما لم يقم بعمل ما استؤجرله وإنجازه ومهما مضى من الزمن وهو حاضر للعمل؛ فلا يستحق شيئا من الأجرة كما لو استأجر إنسان خياطا ليصنع له قباء فما لم يعمله لا يستحق أجرة ."

(کتاب الاجارۃ،باب ثانی، ج نمبر۱، ص نمبر ۴۵۷، دار الجیل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة»

قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا."

(کتاب البیوع،۴، ص نمبر ۵۱۸، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الفصل الثاني فيما يفسد العقد فيه لمكان الشرط) والإجارة تفسدها الشروط التي لا يقتضيها العقد كما إذا شرط على الأجير الخاص ضمان ما تلف بفعله أو بغير فعله أو على الأجير المشترك ضمان ما تلف بغير فعله على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أما إذا اشترط شرطا يقتضيه العقد كما إذا شرط على الأجير المشترك ضمان ما تلف بفعله لا يفسد العقد. كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الاجارۃ، باب الخامس عشر، فصل ثانی ، ج نمبر ۴، ص نمبر ۴۴۲، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں