بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ سال تک بیوی سے جماع کرنے پر تین طلاق کو معلق کرنا


سوال

زید نےآج سےتقریباً ڈیڑھ سال پہلےجولائی 2021ء میں اپنی بیوی کو غصےمیں آکر کہا"اگرمیں نےایک سال تک تم سےصحبت کی تو تمہیں تین طلاق"، پھراس واقعہ کےایک ماہ بعد دوبارہ لڑائی ہوئی، جس پر اس نےکہا"میں نےدوسال تک تم سےصحبت کی توتمہیں طلاق"،پھر 22 جنوری 2023ء کوغصےمیں آکرکہا"میں نےتم سےپانچ سال تک صحبت کی تو تمہیں طلاق"،نیز اس مسئلہ سےپہلےزید اپنی بیوی کود و طلاقیں دےچکاہے،اورجولائی 2021ء سےتاحال صحبت بھی نہیں کی،اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟اگر طلاق واقع ہوگئی تو عدت کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہرنےپہلی مرتبہ یہ کہاکہ اگرایک سال تک تم سےصحبت کی تو تمہیں تین طلاق ،پھر دوبارہ  دو سال  تک کہہ کر اور پھر پانچ  سال  تک کہہ کر  طلاق کو معلق کیا،اس کےبعد سے اب تک بیوی کےقریب بھی نہیں گیاتو   یہ شرعاً '' اِیلاء''  ہے، ''ایلاء''  کا حکم یہ ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہ کیا تو چار ماہ پورے ہوتے ہی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، اس صورت میں شوہرپر قسم کا کفارہ نہیں ہوگا، چوں کہ شوہرپہلےبھی دوطلاقیں دےچکاہےلہذاان الفاظ سےبیوی پرتیسری طلاق واقع ہونے کی وجہ سےبیوی حرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہوچکی،دوبارہ نکاح جائز نہیں ہے،پھردوبارہ ساتھ رہنے کی  صورت  یہ ہوگی  کہ اگر مطلقہ اپنی عدت (تین ماہورایاں اگرحمل نہ ہو،حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش تک) مکمل  ہو جانے کے بعدکسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرلے اور اس سے جسمانی تعلق (صحبت ) قائم ہو جائے ،اس کے بعد دوسرا شوہر اسے طلاق دےدے یا عورت خود طلاق لے لے یا دوسرے شوہر  کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار  کر مذکورہ سابقہ شوہراپنی مطلقہ بیوی سے نکاح کر سکے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (هو) لغةً: اليمين. وشرعاً: (الحلف على ترك قربانها) مدته ولو ذمياً، (والمولي هو الذي لا يمكنه قربان امرأته إلا بشيء) مشق (يلزمه) إلا لمانع كفر.۔۔۔۔ (وحكمه: وقوع طلقة بائنة إن برّ) ولم يطأ (و) لزم (الكفارة، أو الجزاء) المعلق (إن حنث) بالقربان. (و) المدة (أقلها للحرة أربعة أشهر، وللأمة شهران) ولا حد لأكثرها ۔۔۔ وألفاظه صريح وكناية، (ف) من الصريح (لو قال: والله) وكل ما ينعقد به اليمين (لا أقربك) لغير حائض، ذكره سعدي ؛ لعدم إضافة المنع حينئذ إلى اليمين، (أو) والله (لا أقربك) لا أجامعك لا أطؤك لا أغتسل منك من جنابة (أربعة أشهر).

(قوله: وشرعا الحلف إلخ) يشمل التعليق بما يشق فإنه يسمى يمينا كما قدمناه في باب التعليق، ولهذا قال في الفتح: وفي الشرع هو اليمين على ترك قربان الزوجة أربعة أشهر فصاعدا بالله تعالى، أو بتعليق ما يستشقه على القربان. قال: وهو أولى من قول الكنز الحلف على ترك قربانها أربعة أشهر."

(کتاب الطلاق،باب الایلاء،422/3،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي شرح الطحاوي لو قال: أنت طالق قبيل ‌أن ‌أقربك فإنه يصير موليا فإن قربها وقع الطلاق بعد القربان بلا فصل ولو تركها حتى مضت أربعة أشهر بانت بالإيلاء كذا في التتارخانية."

(كتاب الطلاق،الباب السابع فی الایلاء،482/1،ط:رشیدیہ)

ارشادِ ربانی ہے:

"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ "(بیان القرآن)

         بخاری شریف  میں ہے:

'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."

(کتاب الطلاق،باب من اجاز طلاق الثلاث،47/7،ط: مکتبہ سلطانیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ الخ، :1/ 473:ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں