اگر کسی نے سر پر بالوں کا (transplant)کرایا، اور ہمیشہ کےلیے بال لگوالیے تو ایسے شخص کےلیے سر پر مسح کرنا جائز ہوگا؟
2۔ایک عورت نماز سے باہر بغیر سہارا لگائے زمین (سرین )پربیٹھے ہوئے تو تقریباًپانچ منٹ تک سو جاتی ہیں تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹیگا یا نہیں ؟
اور یہی مسئلہ دوران نماز پیش آئے تو وضو ٹوٹنے کا کیا حکم ہے؟
3۔کسی کےپاس پانچ تولے سونا ہے اور چاندنی کی دو انگوٹھیاں ہیں اور نقدی رقم بھی بالکل نہیں ہے ،اگر پانچ سو ہزار ہوتے ہیں تو خرچ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں زکات واجب ہوگی ؟اورقربانی واجب ہوگی ؟
1۔صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص نے سرپر بالوں کا ٹرانسپلاٹ کرایا ہو اوربال سرکے مساموں میں پیوست کردیےگئےہوں یعنی لگائے ہوئے بال سر پر اس طرح ملصق ہوجائیں کہ علیحدہ نہ ہوسکتے ہوں ،اور دیگر بالوں کی طرح بڑھتےبھی ہوں توایسے بالوں پر مسح کرنا جائز ہوگا،اور فرض مسح ادا ہوجائےگی،اور اگر اس طرح ملصق نہ ہوں بلکہ سر پر کسی چیز سے چپکائے گئے ہوں اور حسب خواہش علیحدہ ہوجاتے ہوں تو ان پر مسح اور غسل کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو اتار کر مسح کرنا واجب ہوگا۔
2۔اگر کوئی شخص نماز میں یا نما ز کے باہر بغیر سہارا لگائے زمین پرسرین کے بل بیٹھے بیٹھے سو جائے، تو ایسے سونے سے اس کا وضوء بدستور برقرار رہےگا۔
3۔پانچ تولہ سونا اور چاندنی کی دو انگوٹھیاں ملکیت میں ہونے کی صورت میں مذکورہ خاتون صاحب نصاب شمار ہوگی،اور سال مکمل ہونے پرسونے اور چاندنی کی موجود ہ قیمت کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔اس طرح قربانی کرنا بھی لازم ہوگا۔
البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
"وأما ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرة واحدة حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة لقوله تعالى {وإن كنتم جنبا فاطهروا} [المائدة: 6]."
(کتاب الطھارۃ،فرائض الغسل، ج:1، ص:48، دار الکتب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
’’(و) ينقضه حكماً (نوم يزيل مسكته) أي قوته الماسكة بحيث تزول مقعدته من الأرض، وهو النوم على أحد جنبيه أو وركيه أو قفاه أو وجهه (وإلا) يزل مسكته (لا) يزل مسكته (لا) ينقض وإن تعمده في الصلاة أو غيرها على المختار كالنوم قاعداً ولو مستنداً إلى ما لو أزيل لسقط على المذهب‘‘۔
(کتاب الصلاۃ، ج:1، ص:141، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)..... (قوله: قيمة) أي من جهة القيمة، فمن له مائة درهم وخمسة مثاقيل قيمتها مائة عليه زكاتها خلافا لهما، ولو له إبريق فضة وزنه مائة وقيمته بصياغته مائتان لا تجب الزكاة باعتبار القيمة لأن الجودة والصنعة في أموال الربا لا قيمة لها عند انفرادها ولا عند المقابلة بجنسها، ثم لا فرق بين ضم الأقل إلى الأكثر كما مر، وعكسه كما لو كان له مائة وخمسون درهما وخمسة دنانير لا تساوي خمسين درهما تجب على الصحيح عنده ويضم الأكثر إلى الأقل؛ لأن المائة والخمسين بخمسة عشر دينارا، وهذا دليل على أنه لا اعتبار بتكامل الأجزاء عنده وإنما يضم أحد النقدين إلى الآخر قيمة ط عن البحر.
قلت: ومن ضم الأكثر إلى الأقل ما في البدائع أنه روى عن الإمام أنه قال: إذا كان لرجل خمسة وتسعون درهما ودينار يساوي خمسة دراهم أنه تجب الزكاة، وذلك بأن تقوم الفضة كل خمسة منها بدينار."
(کتاب الزکات، باب زکاۃ المال، ج: 2، ص: 303، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى) خانية.
(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."
(كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 312، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144612101491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن