بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ نمازیں پڑھنے کا ثواب پچاس نمازوں کا ہے


سوال

 پوچھنا یہ تھا کہ جو ایک قول مشہور ہے کہ پانچ نمازیں پڑھنے کا ثواب پچاس نمازوں کا ہے،  اس کے متعلق کوئی  نص وارد ہے،  دلائل کے ساتھ  راہنمائی  فرمائیں ؟

جواب

پانچ نمازیں پڑھنے کا ثواب پچاس نمازوں کا ہے اس کا   ثبوت قرآن و حدیث میں موجود ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد:

مَنْ ‌جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا

ترجمہ :جو شخص نیک کام کرےگا، اس کو اس کے دس حصے ملیں گے یعنی ایسے سمجھا جائے گا کہ گویا وہ نیکی دس بار کی ،نیز نیکی پر جس قدر ثواب ملتاہے، اب دس حصے ویسے ثواب کے ملیں گے۔ (بیان القرآن)

اور حدیث پاک میں ہے:

حضرت  انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے  کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی اس وقت میں مکہ میں تھا پھر جبریل علیہ السلام آئے انھوں نے میرے سینہ کو چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اس کو میرے سینے میں ڈال دیا اور سینے کو بند کردیا پھر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیااور مجھے آسمان کی طرف لے چلے جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ کھولو انھوں نے پوچھا آپ کون ؟جواب دیا کہ جبریل پھر انھوں نے پوچھا آپ کے ساتھ  کوئی اور بھی ہے جواب دیا کہ ہاں میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں، انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس آپ  کو بھیجا گیا تھا، کہا جی ہاں !پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھ گئے ، وہاں ہم نے ایک شخص کو دیکھا جو بیٹھے ہوئے تھے، ان کی دائیں طرف کچھ کالبد(یعنی قالب سانچا) تھے اور کچھ کالبد(یعنی قالب سانچا)  بائیں طرف تھے ، جب وہ اپنی دائیں طرف دیکھتے تو مسکرادیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے، انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا خوش آمدید صالح نبی اور صالح بیٹے !میں نے جبریل سے پوچھا یہ کون ہے؟ انھوں نے کہایہ آدم علیہ السلام ہے،اور ان کے دائیں بائیں جو کالبد  (یعنی قالب سانچا) ہیں یہ بنی آدم کی روحیں ہیں جوکالبد (یعنی قالب سانچا) دائیں طرف ہے وہ جنتی روحیں ہیں اور جو بائیں طرف ہیں وہ دوزخی روحیں ہیں، اس لئے جب وہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے  ہیں تو روتے ہیں، پھر جبریل مجھے لےکر دوسرے آسمان تک پنہچے  اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے داروغہ کی طرح پوچھا پھر کھول دیا،  حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ آپ ﷺ نے آسمان پر آدم موسی عیسی اور ابراہیم  علیہم السلام کو موجود پایا اور ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ان کے مدارج نہیں بیان کئے، البتہ یہ بیان کیا کہ حضور ﷺ نے حضرت آدم کو آسمان دنیا پر پایا اور ابراہیم کو چھٹےآسمان پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جب جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے ساتھ ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے فرمایا خوش آمدید صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب کہ یہ  ادریس ہیں پھر میں موسی علیہ السلام تک پہنچا انھوں نے فرمایا خوش آمدید  صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟  جبریل نے بتایا کہ یہ موسی علیہ السلام ہیں پھر میں عیسی علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا خوش آمدید صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟جبریل نے بتایا کہ یہ عیسی علیہ السلام ہیں پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا انھوں نے فرمایا خوش آمدید  صالح نبی اور صالح بھائی میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟  جبریل نے بتایا کہ یہ ابراہیم  علیہ السلام ہیں ، ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس ابو حبۃ الانصاری کہا کرتے تھےکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا پھر مجھے جبریل لے چلے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے  قلم کی آواز سنی، ابن حزم نے اپنے شیخ سے حدیث بیان کی اور انس بن مالک نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پس اللہ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، میں انھیں لے کر واپس لوٹا موسی علیہ السلام تک جب پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا؟ میں  نے کہا پچاس نمازیں فرض کیں انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے  اللہ کی بارگاہ میں جائیں کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کا تحمل نہیں کر سکتی ، میں واپس بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو تو اس میں سے ایک حصہ کم کردیا گیا پھر موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ  کم کردیا گیاہے، انھوں نے کہا دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی  طاقت نہیں ،پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا پھر ایک حصہ کم ہوا، پھر میں موسی علیہ السلام کے پاس جب پہنچا تو انھوں نے کہا کہ اپنے رب کی بارگاہ مین پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کا بھی تحمل نہیں کرسکتی ،پھر میں بار بار آیا گیا پس اللہ نے فرمایا کہ یہ نمازیں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس کے برابر ، میرے بات نہیں بدل جاتی اب میں موسی علیہ السلام کے یہاں آیاتو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے لیکن میں نے کہا کہ مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہےپھر جبریل مجھے  سدرۃالمنتہی تک لےگئے، اس پر ایسے مختلف رنگ محیط تھے جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں اس کے بعد مجھے جنت میں لےجایاگیا میں نے دیکھا کہ اس میں موتی کے ہار تھے اور اس کی مٹی مشک کی طرح تھی۔ 

صحيح البخاري میں ہے:

''عن ‌أنس بن مالك قال: كان ‌أبو ذر يحدث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «فرج عن سقف بيتي وأنا بمكة، فنزل جبريل، ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغه في صدري، ثم أطبقه، ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا، فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء: افتح، قال: من هذا؟ قال: هذا جبريل، قال: هل معك أحد؟ قال: نعم، معي محمد صلى الله عليه وسلم، فقال: أرسل إليه؟ قال: نعم، فلما فتح علونا السماء الدنيا، فإذا رجل قاعد على يمينه أسودة، وعلى يساره أسودة، إذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل يساره بكى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت لجبريل: من هذا؟ قال: هذا آدم، وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه، فأهل اليمين منهم أهل الجنة، والأسودة التي عن شماله أهل النار، فإذا نظر عن يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، حتى عرج بي إلى السماء الثانية، فقال لخازنها: افتح، فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح. قال أنس: فذكر أنه  وجد في السموات آدم، وإدريس، وموسى، وعيسى، وإبراهيم، صلوات الله عليهم، ولم يثبت كيف منازلهم، غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة. قال أنس: فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس، قال: مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. فقلت: من هذا؟ قال: هذا إدريس، ثم مررت بموسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا موسى، ثم مررت بعيسى فقال: مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا عيسى، ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم.» قال ابن شهاب: فأخبرني ابن حزم: أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام. قال ابن حزم وأنس بن مالك: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ففرض الله على أمتي خمسين صلاة، فرجعت بذلك، حتى مررت على موسى، فقال: ما فرض الله لك على أمتك؟ قلت: فرض خمسين صلاة، قال: فارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعني فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى، قلت: وضع شطرها، فقال: راجع ربك، فإن أمتك لا تطيق، فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إليه فقال: ارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعته فقال: هي خمس وهي خمسون، لا يبدل القول لدي، فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: استحييت من ربي، ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى، وغشيها ألوان لا أدري ما هي، ثم أدخلت الجنة، فإذا فيها حبايل اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك."

(‌‌ کتاب الصلاۃ،باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء،ج:1،ص:78،رقم الحدیث349،ط:دار طوق النجاة،بيروت)

منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري میں ہے:

"يقول أنس رضي الله عنه: " كان أبو ذر رضي الله عنه يحدث أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: فرج " بضم الفاء وكسر الراء " عن سقف بيتي " أي بينما كان النبي صلى الله عليه وسلم تلك الليلة في بيت أم هانىء بمكة لم يشعر إلا وقد فتح السقف، ونزل منه الملك - وهو جبريل عليه السلام، ودخل عليه، وكان ذلك إشارة واضحة إلى قدومه من الملأ الأعلى.أما ما جاء في رواية مالك بن صعصعة رضي الله عنه أن نبي الله حدثهم ليلة أسري به قال: " بينا أنا في الحطيم وربما قال في الحجر مضطجعا إذ أتاني آت، فشق ما بين هذه وهذه " وكيف الجمع بينهما؟ فقد قال العيني: أما على كون العروج مرتين فظاهر، وأما على كونه مرة واحدة فلعله صلى الله عليه وسلم بعد غسل صدره دخل بيت أم هانىء، ومنه عرج به إلى السماء. " قلت " وهذا الاحتمال الأخير يتعارض مع حديث الباب في السياق، والاحتمال الأقرب أن النبي صلى الله عليه وسلم جاءه جبريل في بيت أم هانىء، فخرج به إلى الحجر أو الحطيم، فشق صدره هناك الخ ما جاء في الحديث حيث قال النبي صلى الله عليه وسلم: " فنزل جبريل ففرج صدري " بفتح الفاء الأولى والثانية، وفتح الراء، أي فشق جبريل صدر النبي صلى الله عليه وسلم من ثغرة نحره إلى شعرته بكسر الشين " "فاستخرجذهب ممتلىء حكمة وإيمانا، فأفرغه في صدري، ثم أطبقه، ثم أخذ بيدي، فعرج بي إلى السماء الدنيا، فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء: افتح، قال: من هذا؟ قال: جبريل، قال: هل معك أحد؟ قال: نعم معى محمد - صلى الله عليه وسلم -، فقال: أرسل إليه؟ قال: نعم، فلما فتح علونا السماء الدنيا، فإذا رجل قاعد على يمنيه أسودة،قلبي" أي فأخرج الملك قلبه الشريف صلى الله عليه وسلم حقيقةً لا مجازًا، ولا حاجة إلى العدول عن الحقيقة إلى المجاز في خبر الصادق المصدوق، ولا عجب في ذلك، فإن المعراج معجزة من معجزاته صلى الله عليه وسلم و المعجزات كلها أمور خارقة للعادة، خارجة عن نظام العالم، والسنن الكونية، وما هي إلا تحديات لقدرة البشر بقدرة الله تعالى. " ثم غسله بماء زمزم " أي ثم غسل الملك قلبه صلى الله عليه وسلم بماء زمزم تطهيرا وتقوية له بهذا الماء المبارك، لما فيه من غذاء روحي ومادي معا " ثم جاء بطست من ذهب " وكان هذا الطست من الأواني الذهبية الموجودة في الجنة فأتى به من هناك تكريما للنبي - صلى الله عليه وسلم - وإعلاء لشأنه، وحفاوة به " ممتلىء حكمة " بالنصب، على أنه تمييز ملحوظ، أي جاءه بطست ذهبي من الجنة، ممتلىء بالعلم الرباني النافع، المؤدي إلى التوفيق والصواب في القول والعمل " فأفرغه في صدره، ثم ختمه " أي ثم ختم صدره الشريف بعد غسله وتطهيره وإفراغ ذلك الطست فيه، وضمه على العلم الرباني والنور الإلهي الذي أودعه فيه، لئلايجد الشيطان إليه سبيلا. قال صلى الله عليه وسلم: " فعرج بي إلى السماء الدنيا " أي فأسرى بي أولا على البراق من مكة إلى بيت المقدس، ثم صعد بي الملك من بيت المقدس على المعراج إلى السماء الدنيا، والبراق، وعلى يساره أسودة، إذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل يساره بكى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت لجبريل: من هذا؟ قال: هذا آدم، وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه فأهل اليمين منهم أهل الجنة، والأسودة التي عن شماله أهل النار، فإذا نظر عن يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، حتى عرج بي إلى السماء الثانية، فقال لخازنها: افتح! فقال له خازنها مثل ما قال الأول، ففتح، قال أنس: فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم صلوات الله عليهم، ولم يثبت كيف منازلهم، غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة، قال أنس: فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس قال: مرحبا بالنبي الصالح  ، دابة من دواب الجنة دون البغل وفوق الحمار. أما المعراج فهو كما قال ابن سيده: شبه سلم تعرج عليه الأرواح وقد اختاره الله مصعدا لنبيه إلى السماء " فإذا رجل قاعد عن يمينه أسودة " أي أشخاص " قال هذا آدم وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه " بفتح النون والسين أي أرواحهم، حيث تشكلت على صورة أجسامهم " حتى عرج بي إلى السماء الثانية " أي وبعد الأولى صعد بي الملك إلى الثانية، وانتقلت من سماء إلى سماء، والتقيت بالأنبياء، " ولم يثبت منازلهم " أي لم يعين صلى الله عليه وسلم السماء التي فيها كل نبي منهم إلا السماء الدنيا والسادسة، وفي مسلم فذكر آدم في السماء الأولى، ويحيى وعيسى في الثانية، ويوسف في الثالثة، وإدريس في الرابعة، وهارونوالأخ الصالح، فقلت: من هذا؟ قال: هذا إدريس، ثم مررت بموسى فقال: مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا موسى، ثم مررت بعيسى، فقال: مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا عيسى، ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح. قلت: من هذا؟ قال: هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام، قال ابن حزم وأنس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ففرض الله عز وجل على أمتي خمسين صلاة، فرجعت بذلك حتى مررت على موسى، فقال: ما فرض الله على أمتك؟ قلت: فرض خمسين صلاة، قال: فارجع إلى ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى، قلت: وضع شطرها، فقال: راجع ربك فإن أمتك لا تطيق، فراجعت، فوضعشطرها، فرجعت إليه فقال: ارجع إلى ربك فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعته، فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي، فرجعت إلى موسى فقال: راجع ربك. فقلت: استحييت من ربي، ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهي وغشيها ألوان لا أدري ما هي، ثم أدخلت الجنة فإذا فيها حبائل اللؤلؤ وإذا ترابها المسك".شطرها" أي نقص جزءا منها، وما زال صلى الله عليه وسلم يراجع ربه، والرب عز وجل ينقص من عدد الصلوات حتى صارت خمسا، " فقال: هي خمس " أي خمس في عددها " وخمسون " في مضاعفة ثوابها " لا ييدل القول لدي " أي هذا هو قضاء الله تعالى ووعده الذي لا يقبل التخلف " ثم أدخلت الجنة، فإذا في حبائل اللؤلؤ " أي أسلاك اللؤلؤ المنظوم. الحديث: أخرجه الشيخان، والترمذي والنسائي.

 (کتاب الصلاۃ،باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء،ج:1،ص372،ط:مكتبة دار البيان، دمشق)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں