میرے پاس 5 لاکھ روپے ہیں جو میری سیلری ہے، پانچ ماہ کی ایک ماہ میں ہی ملی تو کیا اس پر زکات لگتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو گزشتہ پانچ ماہ کی تنخواہ کی مد میں پانچ لاکھ روپے ملے ہیں، اور اس کے ملنے سے پہلے آپ کی اپنی زکات کا سال مکمل ہوچکا ہو تو اب دوبارہ اس کی زکات ادا کرنا لازم نہیں ہوگا، اس لیے کہ تنخواہ کی رقم جب تک وصول نہ ہوجائے وہ ملازم کی ملکیت میں نہیں آتی، بلکہ ادارے کے ذمہ واجب الادا ہوتی ہے اور یہ دینِ ضعیف ہے، اس کے وصول ہونے کے بعد اس رقم کی گزشتہ عرصے کی زکات ادا کرنا لازم نہیں ہوتا۔
البتہ یہ پانچ لاکھ رقم وصول ہونے کے بعد یہ تفصیل ہے کہ اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو آپ کے نصاب کا سال جب مکمل ہو تو اس وقت آپ کی ملکیت میں موجود دیگر رقم کے ساتھ اگر یہ رقم بھی موجود ہو تو اس رقم سے بھی زکات نکالنا لازم ہوگا چاہے رقم وصول ہونے کے بعد سال مکمل نہ بھی ہوا ہو۔
اور اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہیں، بلکہ اس رقم کے وصول کرنے سے صاحبِ نصاب بنے ہیں تو اس دن سے لے کر قمری حساب سے سال مکمل ہونے والے دن اگر آپ کے پاس نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر یا اس سے زائد نقد رقم یا زیورات یا مالِ تجارت موجود ہو تو کل مالیت کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔
اسی طرح اگر آپ کو یہ پانچ ماہ کی پیشگی تنخواہ ملی ہو تو تنخواہ کی جو رقم وصول ہوچکی ہے، وہ آپ کی ملکیت میں آگئی ہے، اس لیے زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر اگراس میں سے کچھ بچی ہوئی ہو تو اس کی زکاۃ بھی لازم ہوگی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -: ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً ويحول عليه الحول".
(1/ 175،کتاب الزکوۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201343
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن