بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ ہزار افراد مشتمل گاؤں میں جمعہ کا حکم


سوال

 ضلع شانگلہ خیبر پختونخوا میں ہمارا گاوں "بونیروال" مرکزی بازار الوچ سے تقریبا دو کلومیٹر کے فاصلہ پر اونچائی کی طرف واقع ہے۔گاوں بونیروال کی حدود سے الوچ تک پیدل راستہ تقریبا تیس منٹ کا ہے۔ جبکہ کچی سڑک پر موٹر سائیکل کے ذریعے دس سے بارہ منٹ کا فاصلہ ہوگا۔ مرکزی بازار الوچ میں نماز جمعہ کے قیام کی تمام شرائط پوری ہیں۔ علاقہ بونیروال جو یہاں کی اصطلاح میں گاوں کہلاتا ہے، تین سو سے زائد گھروں پر مشتمل ہے اور نفوس کی تعداد پانچ ہزار سے بھی زیادہ ہے لیکن مذکورہ گھر ایک مقام پر باہم متصل واقع نہیں بلکہ دو چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان والے علاقے میں تھوڑے تھوڑے دور منتشر واقع ہیں۔ گاؤں بونیروال میں جگہ جگہ چھوٹی دکانیں موجود ہیں البتہ لوگ زیادہ تر سودا قریبی مرکزی بازار الوچ سے لیتے ہیں۔ بازار الوچ اور بونیروال ایک ہی یونین کونسل میں واقع ہیں۔ گاوں بونیروال کے آس پاس دیگر بستیوں اور گاوں میں لوگ جمعہ قائم کرتے ہیں۔ تو کیا گاوں بونیروال کی حدود کے اندر کسی بڑی مسجد میں نماز جمعہ کا قیام جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا  بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا درست ہے ،بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی آبادی تین یا چار ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اس میں جمعہ ادا کرنا صحیح ہوگالہذا صورت مسئولہ میں چوں کہ گاؤں بونیر وال کی آبادی پانچ ہزار نفوس سے بھی زیادہ ہے تو وہاں جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة."

(کتاب الصلوۃ , باب الجمعة جلد 2 ص: 138 ط: دارالفکر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے۔"

(کتاب الصلوۃ جلد ۱ ص:۲۹۴ ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410100942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں