بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پالتو جانوروں میں زکات کا حکم


سوال

  1. ایسا سنا ہے کہ "بلی کتا وغیرہ اگر آزاد ہو تو جو چاہے کھائے پیئے لیکن اگر ان کو پالا  جائےتو اس کو حلال کھانا کھلاناہی  لازم ہے" عموماً گھر میں رکھی گئی پالتو بلی کو مری ہوئی کبوتر وغیرہ گرجائے تو اس کو  کھا لیتی ہیں، اسی طرح کچھ لوگ مری ہوئی مرغی اپنی پالتو بلی کو دے دیتے ہیں یا کسی مرغی والے سے مری ہوئی مرغی سستے دام لے کہ کھلا رہے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
  2. بلی اگر اس نیت سے رکھی جائے کہ جب اس کے بچے ہوں گے تو بیچ دوں  گا،کیا اس صورت میں بلیوں  میں  زکوٰۃ واجب ہو گی؟ ہو گی تو کیا صورت ہے رقم کے تعین کی؟

جواب

  1. واضح رہے کہ   شریعت نے مردار کے استعمال سے منع کیا ہے،   لہذا اس میں  خرید و فروخت  کا معاملہ جائز نہیں ،اسی طرح پالتو جانوروں کو  بھی مردار کھلاناناجائز ہے۔اگر کوئی جانور خود کوئی مردار یا نجس کھالیتا ہے تو چونکہ جانور شرعی احکام کا مکلف نہیں ہے اس لیے وہ گناہ گار نہیں ہے مگرانسان کےلیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
  2. واضح رہے کہ  جو  پالتو جانور  اس لیے پالے جاتے ہوں کہ ان کی افزائش نسل کرکے ان کے بچوں کو فروخت کرنا مقصود ہو تو  سال مکمل ہونے پر تجارت کے لیے رکھے گئے   جانوروں کی مالیت پر زکوة واجب ہوگی، اسی طرح  سال کے دوران جو جانور فروخت کر دیے گئے، اور ان سے جو آمدنی ہوئی، اگر کل یا بعض آمدنی سال مکمل ہونے پر محفوظ ہو تو اس کی بھی  زکوۃ ادا کرنا  لازم ہوگا، بشرط یہ کہ سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہو یا اس کی ضروریات سے زائد رقم  ساڑھے باون  تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زائد ہو،تو زکات ادا  کرنا لازم ہوگا۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"(قوله: وكذا لايسقيها الدواب) كان أبو الحسن الكرخي يحكي عن أصحابنا أنه لايحل للإنسان النظر إلى الخمر على وجه التلهي ولا أن يبل بها الطين ولا أن يسقيها للحيوان وكذلك الميتة لايجوز أن يطعمها كلابه: لأن في ذلك انتفاعًا والله تعالى حرم ذلك تحريمًا مطلقًا معلقًا بأعيانها وسئل عن الفرق بين الزيت تموت فيه الفأرة وبين الخمر في جواز الانتفاع بالزيت في غير جهة الأكل وامتناع الانتفاع بالخمر من سائر الوجوه فكان يحتج في الفرق بينهما بأن الخمر محرمة العين وأن الزيت غير محرم العين، وإنما منع أكله لمجاورته الميتة."

(كتاب الأشربة، فصل في طبخ العصير، ج: 6 ص: 49  ط: المطبعة الكبري الأميرية)

 رد المحتارمیں ہے

"(و) ‌بطل (‌بيع مال غير متقوم) أي غير مباح الانتفاع به ابن كمال فليحفظ (كخمر وخنزير وميتة لم تمت حتف أنفها)."

(باب البیع الفاسد، مطلب في بيع المغيب في الأرض، ج: 5 ص: 51 ط: سعید) 

وأیضاً فیہ: 

"لكن في الخانية: بيع الكلب المعلم عندنا جائز، وكذا السنور، وسباع الوحش والطير جائز معلماً أو غير معلم."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب في بيع دودة القرمز، ج: 5 ص: 69 ط: سعید)

و أیضاً فیہ:

"باب السائمة (هي) الراعية، وشرعاً (المكتفية بالرعي) المباح، ذكره الشمني (في أكثر العام لقصد الدر والنسل) ذكره الزيلعي، وزاد في المحيط (والزيادة والسمن) ليعم الذكور فقط، لكن في البدائع لو أسامها للحم فلا زكاة فيها كما لو أسامها للحمل والركوب ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة ولعلهم تركوا ذلك لتصريحهم بالحكمين."

(کتاب الزکاة، باب السائمة، ج: 2 ص: 275 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں