بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلکوں پر مسکارا لگا ہو تو وضو اور غسل کا حکم کیا ہوگا؟


سوال

عورت کا پلکوں کے اوپر مسکارا لگانے سے پلکوں کے بالوں پر مسکارا کی تہ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے پلکوں کے بال گیلے نہیں ہوتے ۔ 

کیا ایسی صورت میں وضو اور غسل ہو جائے گا اور اگر پلکوں کی جڑوں تک مسکارا نہ لگایا ہو اور پلکوں کی جڑوں تک پانی پہنچ رہا ہو تب غسل و وضو کا کیا حکم ہے ؟

اگر وضو اور غسل نہیں ہوتا تو ایسی حالت میں پڑھی گئی نمازوں اور روزوں کا کیا حکم ہو گا؟ جبکہ عورت کو معلوم نہیں کہ اس نے پچھلے سالوں میں کب کب یہ لگایا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ وضو  کے ارکان میں سے ایک رکن مکمل  چہرے  کا دھونا  ہے، اور  شرعا چہرے کا اطلاق پیشانی کے بالوں سے لے کر تھوڑی کے نیچے تک، ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی تک کے حصہ پر ہوتا ہے، جس میں آنکھیں،  پلکیں، بھنویں، سب داخل  ہیں، پس وضو کے صحیح ہونے کے لیے جس طرح چہرے کے دیگر حصوں تک پانی پہنچانا ضروری ہوتا ہے، بالکل اسی طرح آنکھوں  کے پپوٹوں ،  پلکوں اور پلکوں کی جڑوں  کا   تر کرنا ضروری ہوتا ہے، لہذا  صورت مسئولہ  میں واٹر پروف مسکارا اگر پلکوں پر لگا ہوا ہو، خواہ واٹر پروف مسکارا صرف   پلکوں پر لگایا گیا ہو، یا پلکوں کے ساتھ ساتھ پلکوں کی جڑوں پر بھی لگایا گیا ہو،  بہر صورت   واٹر پروف  مسکارا    لگے  ہونے کی حالت میں  وضو یا غسل نہیں ہوگا،  وضوء اور غسل سے قبل ایسے مسکارے  کو ہٹانا ضروری ہوگا، اور ہٹائے بغیر جو  وضو  یا غسل کیا گیا، وہ طہارت  بدن کے لیے کافی نہیں ہوگا، لہذا اس حالت میں  جتنی نمازیں ادا کی گئی ہوں، أن کا اعادہ لازم ہوگا، پس اگر ایسی نمازوں کی تعداد  یاد نہ ہو، تو خاتون کو چاہیئے کہ خوب اچھی طرح  سوچ کر غالب گمان کے مطابق نمازوں کی تعداد  متعین کرکے ان  نمازوں کی قضاء  کرلے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" الوجه من منابت شعر الرأسإلى ما انحدر من اللحيين والذقن إلى أصول الأذنين. كذا في العيني شرح الهداية.

إن زال شعر مقدم الرأس بالصلع الأصح أنه لا يجب إيصال الماء إليه. كذا في في الخلاصة وهو الصحيح هكذا في الزاهدي.

والأقرع الذي ينزل شعره إلى الوجه يجب عليه غسل الشعر الذي ينزل عن الحد الغالب. كذا في العيني شرح الهداية.

وإيصال الماء إلى داخل العينين ليس بواجب ولا سنة ولا يتكلف في الإغماض والفتح حتى يصل الماء إلى الأشفار وجوانب العينين. كذا في الظهيرية.

وعن الفقيه أحمد بن إبراهيم إن غسل وجهه وغمض عينيه تغميضا شديدا لا يجوز. كذا في المحيط.

ويجب إيصال الماء إلى المآقي. كذا في الخلاصة.

ولو رمدت عينه فرمصت يجب إيصال الماء تحت الرمص إن بقي خارجا بتغميض العين وإلا فلا. كذا في الزاهدي."

(كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول: في فرائض الوضوء، ١ / ٣ - ٤، ط: دار الفكر)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء."

( كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ص: ٤٤٧، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

وحاشية الشِّلْبِيِّ علي تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

" {فرع} وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقضي حتى يستيقن."

( كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ١ / ١٩٠، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں