بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فلسطین کے موجودہ حالات میں علماءِ کرام کی ذمہ داری


سوال

کیا فلسطین کا مسئلہ ایسانہیں کہ پاکستان کے علماء متحد ہوکر حکومتِ وقت کو فلسطین کے حق میں کچھ کہنے اور کرنے پر مجبور کریں، اس سلسلہ میں وفاق کیوں کوئی اقدام نہیں کررہا؟ نیز کیا ممبر پرخطبہ دینے سےہمارا فریضہ ادا ہوجائے گا؟

جواب

بلاشبہ فلسطین کا حالیہ قضیہ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے لیے اہم ترین قضیہ ہے،  اُمتِ مسلمہ کے تمام طبقے اور  افراد   اپنی اپنی حیثیت  و استطاعت کے مطابق  فلسطین اور بالخصوص غزہ کے مسلمانوں کی مدد  كے  مکلف ہيں۔ مسلمان  کی شان یہی ہے کہ   اپنے فریضے کی ادائیگی میں  استطاعت کے مطابق پوری کوشش کرکے بھی  مطمئن  و قانع نہ ہو،  نگاہ اپنے عمل  پر  نہ ہو، اس کا دکھلاوا   نہ کرے،  دوسروں کو جتلائے نہیں،  بلکہ  جو کچھ کرے محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کی رضا کے لیے عبادت سمجھ کر کرے؛  لہٰذا سائل کا اس حوالے سے فکر مند ہونا  تو   بجا ہے کہ مظلوم اہلِ فلسطین  کی جس سطح پر عالمِ اِسلام کی طرف سے داد رسی ہونی چاہیے تھی، اس میں  اُمتِ مسلمہ کی طرف سے کوتاہی واضح نظر آرہی ہے، تاہم اس اجتماعی کمزوری کا  ذمہ دار  اُمت کے  کسی ایک طبقے کو ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔

مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے  عوام و خواص میں سے جو  بھی کسی درجے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے وہ علّام الغیوب ذات کے علم میں ہے، بندوں کے سامنے اس کے اِظہار   کی ضرورت نہیں ہے، تاہم سائل  اور دیگر مخلص مسلمان  جو اِس حوالے سے فکر مند ہیں ان کے اطمینان اور مزید دعاؤں اور توجہات کی شمولیت کے لیے عرض ہے کہ  وفاق  المدارس العربیہ کے اَکابر اہلِ  علم  سمیت  دیگر علماءِ کرام  اپنی تحریر ، بیان اور مختلف ذرائع سے  اس فریضے  کی ادائیگی  کی سعی میں مصروف ہیں،   علماءِ  کرام  جہاں  منبر و محراب سے اپنے بیانات کے ذریعے  اور فتویٰ و صحافت کے  سنجیدہ میدان میں اپنے فتاویٰ و مضامین  کے ذریعے  عام مسلمانوں اور حکمرانوں کے اندر اس مذہبی فرض کی ذمہ داری کا شعور بیدار کررہے ہیں،  وہیں  منظم و پُر  اَمن  احتجاج اور سیاسی ذرائع  سے  اَربابِ اقتدار کو  اس مسئلے کے حل  کی طرف بھی متوجہ کر رہے ہیں،  نیز   فلسطینی مسلمان بھائیوں  کی مالی و طبی اور  حتی المقدور ہر طرح کی امداد میں  عملی طور پر  پیش پیش بھی ہیں،   مظلوم  اہلِ فلسطین کا ہمارے علماءِ کرام  سے ربط  اور ان پر اعتماد   اِن خدمات کا اعتراف  ہے۔

وطنِ عزیز میں اس وقت   جو علماءِ  کرام  اپنے اپنے دائرے میں جس طور پر بھی مسئلۂ فلسطین کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں، خواہ وہ  مسئلۂ فلسطین سے آگاہی اور  عوامی شعور  کی بیداری  ہو  یا رفاہی نوعیت کی خدمات  ہوں یا  منظم و پر اُمن احتجاج ہو  یا سفارتی و سیاسی سطح پر مؤثر آواز بلند کرنے کی سعی ہو، یہ سب اَکابر اہلِ علم کی مشاورت، ان کی دعاؤں اور سرپرستی کے  نتیجے میں ہی ہے، بلکہ عوام الناس اور دیگر طبقات  کی طرف سے بھی اس حوالے سے جتنی مثبت کوششیں ہورہی ہیں،  انہیں علماءِ کرام کی تائید حاصل ہے؛  لہٰذا  انہیں اپنے  فریضے  میں کوتاہ  شمار  نہیں کیا جاسکتا۔

الغرض اس مسئلے  میں  علماءِ کرام اجتماعی اور  انفرادی طور  پر حسبِ استطاعت  کردار ادا  کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،   لیکن  یہ  پوری اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ اور درد ہے؛   لہٰذا پوری اُمتِ مسلمہ کا دینی و اخلاقی فرض  ہے کہ وہ متفق و متحد ہو کر فلسطینی مسلمانوں کے  ساتھ ہر قسم کا ہر ممکن تعاون  کرے، ان کی نصرت و  حمایت کے لیے اُمت کے تمام طبقے اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق ہر ہر سطح پر بھرپورکردار ادا کریں، اپنے  ملکی قانون اور دستور کے دیے گئے حقوق کے تحت اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی وسعت و قدرت کے تحت اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی داد رسی کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لائیں  اور    مسلمان حکمرانوں پر شرعًا و اخلاقًا لازم ہے کہ بیت المقدس کے مظلوم مسلمانوں کی نصرت و حمایت کے لیے میدانِ عمل میں آئیں، اور اُن کے تحفظ، دفاع  اور   بحالی  کے لیے اپنی دفاعی طاقت، انسانی حقوق  اور  سفارتی اثر و رسوخ کا بھرپور استعمال کریں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری اُمتِ مسلمہ کو اپنے فرائض و ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور فلسطین وکشمیر کے مظلوم مسلمانوں اور تمام مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت فرمائے،آمین یا ربّ العالمین بحرمة سيّد المرسلين صلّى الله تعالى عليه و آله و صحبه أجمعين!

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن النعمان بن بشير) : مر ذكرهما (رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترى المؤمنين) أي: الكاملين (في تراحمهم) أي: في رحم بعضهم بعضا بأخوة الإيمان لا بسبب رحم ونحوه (وتوادهم) ... (وتعاطفهم) أي: بإعانة بعضهم بعضًا (كمثل الجسد) أي: جنسه (الواحد) : المشتمل على أنواع الأعضاء (إذا ‌اشتكى) أي: الجسد (عضوًا) ... (تداعى له) أي: ذلك العضو (سائر الجسد) أي: باقي أعضائه (بالسهر) بفتحتين أي: عدم الرقاد (والحمى) أي: بالحرارة والتكسر والضعف، ليتوافق الكل في العسر كما كانوا في حال الصحة متوافقين في اليسر، ثم أصل التداعي أن يدعو بعضهم بعضا ليتفقوا على فعل شيء، فالمعنى: أنه كما أن عند تألم بعض أعضاء الجسد يسري ذلك إلى كله، كذلك المؤمنون كنفس واحدة إذا أصاب واحدا منهم مصيبة ينبغي أن يغتم جميعهم ويهتموا بإزالتها عنه، وفي النهاية: كان بعضه دعا بعضا، ومنه قولهم: تداعت الحيطان أي: تساقطت أو كادت، ووجه الشبه هو التوافق في المشقة والراحة والنفع والضر."

(كتاب الآداب ،باب الشفقة والرحمة على الخلق،7/ 3102، ط: دارالفكر)

وفیہ أیضاً:

"و خلاصة الكلام: من أبصر ما أنكره الشرع (فليغيره بيده) أي: بأن يمنعه بالفعل بأن يكسر الآلات ويريق الخمر ويرد المغصوب إلى مالكه، (فإن لم يستطع) أي: التغيير باليد وإزالته بالفعل، لكون فاعله أقوى منه (فبلسانه) أي: فليغيره بالقول وتلاوة ما أنزل الله من الوعيد عليه، وذكر الوعظ والتخويف والنصيحة (فإن لم يستطع) أي: التغيير باللسان أيضًا (فبقلبه) : بأن لايرضى به وينكر في باطنه على متعاطيه، فيكون تغييرا معنويا إذ ليس في وسعه إلا هذا القدر من التغيير، وقيل: التقدير فلينكره بقلبه لأن التغيير لا يتصور بالقلب، فيكون التركيب من باب: علفتها تبنا وماء باردا. ومنه قوله تعالى: {والذين تبوءوا الدار والإيمان} [الحشر: 9] (وذلك) أي: الإنكار بالقلب وهو الكراهية (‌أضعف ‌الإيمان) أي: شعبه أو خصال أهله، والمعنى أنه أقلها ثمرة، فمن غير المراتب مع القدرة كان عاصيا، ومن تركها بلا قدرة أو يرى المفسدة أكثر ويكرر منكرا لقلبه، فهو من المؤمنين. وقيل: معناه وذلك أضعف زمن الإيمان، إذ لو كان إيمان أهل زمانه قويا لقدر على الإنكار القولي أو الفعلي، ولما احتاج إلى الاقتصار على الإنكار القلبي، أو ذلك الشخص المنكر بالقلب فقط أضعف أهل الإيمان، فإنّه لو كان قويًّا صلبًا في الدين لما اكتفى به، ويؤيده الحديث المشهور: " «أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر» " وقد قال تعالى: {ولا يخافون لومة لائم} [المائدة: 54] هذا وقد قال بعض علمائنا: الأمر الأول للأمراء، والثاني للعلماء، والثالث لعامة المؤمنين."

(كتاب الأداب، باب الامر بالمعروف، 8/ 3208،ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504100116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں