بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلازہ فروخت کرنے کے بعد کرایہ لینے کا حکم


سوال

 تین بھائیوں نے ایک پلازہ بکر پر فروخت کیا نوے لاکھ روپے پر،  تیس لاکھ بکر سے وصول کرلیےاور بقیہ رقم  چھ مہینے میں ادا کرےگا، بکر کہہ رہا ہے کہ جب تک میں بقیہ رقم ادا نہ کروں اس وقت تک اس پلازہ کا کرایہ آپ لوگ لیتے جائیں جو رقم اب  تک وصول ہوئی  ہے وہ ایک بھائی نے لےلی ہے،وہ فارغ ہوگیا اب دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا اس پلازہ کا کرایہ ان تین بھائیوں کےلیے جائز ہے؟ اور دوسری بات کیا ان میں سے جو ایک بھائی کا حق مل گیا وہ کرایہ کی آمدنی میں دعوی کرسکتا ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ بائع کے لیے فروخت کردہ پلازے کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے،   کیوں کہ پلازہ  جب فروخت کردیا تواب وہ خریدار کی ملکیت  ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں تینوں بھائیوں نے جب پلازہ بکر کو فروخت کردیا تو اب اس پلازہ اور اس کے منافع کی ملکیت بکر کی ہوگی ،بکر کی طرف سے رقم کی ادائیگی تک فروخت کنندگان کو کرایہ کی رقم وصول کرنے کی اجازت دینااگر مشروط ہو تو یہ سود کے حکم میں ہے۔

البتہ اگر سودا ہونے کے بعدخریدار بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے بائع کوپلازے کا کرایہ استعمال کرنے کی اجازت دے اور سودا کرتے وقت یہ شرط بھی نہ رکھی گئی ہو کہ بائع پلازے کا کرایہ  لے گا تو بائع کے لیے فروخت کردہ پلازے کا کرایہ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی،اور اس صورت میں جس بھائی کو اپنا حق ملا ہے وہ اس کرایہ میں دعوی نہیں کرسکتا کیوں کہ اس نے اپنا حق وصول کیا ہے،یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کرائے کی رقم کو خریدار کی اجازت سے اصل قیمت میں سے منہا کر لیںاور باقی رقم وصول کریں۔

السنن الكبرى للبیہقی میں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(كتاب البيوع، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، ج:5، ص:573، رقم:10933، ط:دار الكتب)

فتاوی شامی میں ہے:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام ،ج:5، ص: 166،ط. سعيد،كراچی)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"الزيادة المتولدة من البيع كالولد والعقر والأرش والتمر واللبن والصوف وغيرها مبيعة كذا في محيط السرخسي فإن حدثت قبل القبض كانت لها حصة من الثمن وإن حدثت بعد القبض كانت مبيعة تبعا ولا حصة لها من الثمن أصلا ولو أتلف البائع النماء المتولد من المبيع قبل القبض سقطت حصته من الثمن على قيمة الأصل يوم العقد وعلى قيمة الولد يوم الاستهلاك."

( کتاب البیوع،ج :3،ص:170،ط: رشیدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں