بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ قسطوں پرخریدنے کی وجہ سے نقد کے مقابلے میں قیمت متعین کرکے زیادہ وصول کرنے کا حکم


سوال

قسطوں میں پلاٹ لینا شرعی جائز ہے کہ نہیں ؟جس طرح پلاٹ کی اصل قیمت دس لاکھ ہے ،قسطوں میں بارہ لاکھ کا پڑ جاۓ گا، یہ جو دو لاکھ زیادہ دیتے ہیں یہ جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت  مطہرہ میں جس طرح نقد  پر خریدو فروخت کر نا جائز ہے اسی طرح ادھار یا قسطوں پر بھی کسی چیز کو خریدنا یا بیچنا   جائز ہے ، البتہ قسطوں پر کسی چیز کو خریدنے  یا بیچنے کے لیے  مندرجہ ذیل  شرائط کی رعایت رکھنا ضروری ہے:

(1)معاملہ متعین ہو کہ نقدکا معاملہ ہے یا ادھارکا۔

(2) ہرقسط کی رقم متعین ہواورکل رقم متعین ہو ۔ 

(4) قسط کی  مدت متعین ہو کہ کتنی مدت میں  قسط اداکرے گا ۔

(5 ) کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سےاس میں اضافہ (جرمانہ)کی شرط نہ ہو،یہاگرشرط ہوگی توپورا معاملہ ہی فاسد ہوجائےگا۔

لہذا اگر مذکورہ بالاشرائط  کا لحاظ رکھا گیا تو قسطوں پرپلاٹ کی   خریدو فروخت شرعاً  جائز ہوگی ،نیزقسطوں پربیچنے کی وجہ سے بائع(بیچنے والا)نقد کے مقابلے میں متعین کرکے کچھ زیادہ قیمت وصول کرے توشرعاًیہ جائز ہے،شرعاً یہ سود میں داخل نہیں ہے۔

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے : 

"البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح.

يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط.

إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع.

تأجيل الثمن إلى مدة غير معينة كإمطار السماء يكون مفسدا للبيع."

(الباب الثالث: فی بیان المسائل المتعلقة بالثمن، الفصل الثانی: فی بیان المسائل المتعلقة بالنسيئة والتأجیل ص: 50 ط: نور محمد كتب خانة كراتشي)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"لأن للأجل شبهاً بالمبيع، ألاترى أنه يزاد في الثمن لأجله".

(کتاب البیوع ، باب المرابحة ج : 5 ص : 142 ط : سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع و مطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية و هذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة ج : 7 ص : 13 ط : دارالمعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101319

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں