بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ کو اس کی اصل قیمت پر قسطوں کی صورت میں خریدنے کا حکم


سوال

اگر کسی پلاٹ کی اصل قیمت دس لاکھ روپے ہے، وہی پلاٹ اگر میں قسطوں میں خریدوں، اور دس لاکھ روپے ہی ادا کروں، تو اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل وہ پلاٹ جس کی اصل قیمت دس لاکھ روپے ہے،وہی پلاٹ قسطوں میں بھی دس لاکھ روپے میں خریدرہا ہے، تو یہ معاملہ شرعاًدرست ہے، اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے،  البتہ قسطوں پر خرید و فروخت جائز ، و صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

۱- معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

۲- مدت متعین ہو۔

۳- مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

۴- کسی قسط کی ادائیگی جلدی کرنے کی صورت میں قیمت میں کمی اور تاخیر کی صورت میں اضافہ (جرمانہ) وصول کرنے کی شرط نہ رکھی جائے، اور نہ جرمانہ وصول کیا جائے۔

پس معاملہ کرتے وقت اگر  مذکورہ بالا شرائط کی پاس داری کی جائے تو یہ جائز ہے، اور اگر ان شرائط کی پاس داری نہ کی جائے تو اس صورت میں قسطوں پر خرید و فروخت کا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ....... وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، ج:13، ص:7، 8، ط:دار المعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول، وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا ‌علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم ‌يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:158، ط:دار الكتب العلمية)

دررا لحکام شرح مجلہ الأحکام میں ہے:

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح يصبح البيع بتأجيل الثمن وتقسيطه بشرط أن يكون:

أولا: بخلاف جنسه.

وثانيا: أن يكون دينا لا عينا ليس للبائع أن يطالب بالثمن قبل حلول الأجل."

(البیوع، الباب الثالث، الفصل الثاني، المادة :245، ج:1، ص:227، ط:دار الجيل)

بحوث في قضايا فقهية معاصرة  میں ہے:

"أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثون، فقد أجازوا ‌البيع ‌المؤجل بأكثر من سعر النقد، بشرط أن يبت العاقدان بأنه بيع مؤجل بأجل معلوم، وبثمن متفق عيه عند العقد."

(أحكام البيع بالتقسيط، ص:12، ط:دار القلم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں